سی آئی اے کو کن مقاصد اور کن معاہدوں کے تحت پاکستان میں مکمل رسائی دی گئی.


سی آئی اے کو کن مقاصد اور کن معاہدوں کے تحت پاکستان میں مکمل رسائی دی گئی..تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہئے

لندن (تحقیقاتی رپورٹ/ خالد ایچ لودھی) شمسی ائر بیس آخر کار امریکی سی آئی اے سے باضابطہ طور پر خالی کروا لیا گیا۔ موجودہ حکومت اسے اپنا کارنامہ تصور کرے گی جبکہ ماضی میں اسی حکومت نے سرزمین پاکستان پر امریکی فوجی اڈوں کے قیام سے حکومتی سطح پر انکار کیا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف دور میں دو تین امریکی فوجی اڈے باقاعدہ آپریشنل تھے جن میں جیکب آباد کا شہباز ائربیس بھی تھا۔ ان اڈوں سے امریکی ڈرون پرواز کر کے پاکستانی سرزمین پر ہی حملوں میں مصروف رہے۔ سیاسی سطح پر امریکی دہشت گردی کی بدترین مثالیں پاکستان میں قائم ہوئیں اور موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان میں امریکی تسلط اپنے خونخوار پنجے گاڑ رہا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتی مشنز سے سی آئی اے کے لئے کام کرنے والے ہزاروں خفیہ ایجنٹوں کو بلیک واٹر اور مختلف این جی اوز کے روپ میں ویزے جاری کروانے میں حکومتی شخصیات ملوث رہی ہیں جن میں حسین حقانی اور رحمن ملک کا کردار اب پوشیدہ نہیں رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہئے کہ سی آئی اے کو پرویز مشرف اور پھر آصف زرداری کے دور حکومت کے دوران کن مقاصد اور کن معاہدوں کے تحت پاکستان میں مکمل رسائی دی گئی۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے کرداروں کو پاکستانی شہریوں کو قتل کر کے امریکہ جانے کی اجازت کس معاہدے کے تحت دی گئی۔ شمسی ائربیس پر امریکی فوجی بغیر امیگریشن کلیرنس آتے جاتے رہے۔ امریکی اڈوں کے لئے کوئی تحریری معاہدہ موجود موجود نہیں۔ بعض عسکری ذرائع یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ اس ضمن میں زبانی طور پر پاکستان کی اعلیٰ شخصیات اور چند دوست ممالک کے انتہائی اعلیٰ عہدیداروں کے ایما پر امریکہ اور پاکستان کے مابین خفیہ سفارت کاری کے ذریعے یہ عمل مکمل ہوا تھا۔ قواعد کو نظرانداز کر کے صدر آصف زرداری کے ساتھ امریکہ اور پاکستان کی سفارتی کاری کے امور طے کرتے رہے ہیں۔ ایوان صدر میں موجود حسین حقانی کی اہلیہ فرح اصفہانی کا کردار بھی ہمیشہ سوالیہ نشان بنا رہا۔ اب دلچسپ امر یہ ہے کہ حسین حقانی ایوان صدر اور اب وزیراعظم ہاﺅس کے محفوظ بنکر میں بیٹھ کر اپنے آپ کو محفوظ تصور کر رہے ہیں جو کہ پوری قوم کے لئے وبال جان ہے۔



Post a Comment

0 Comments