سردار عطاءاللہ مینگل کے تلخ جذبات اور نواز شریف کا بلوچستان کا مقدمہ خود لڑنے کا اعلان .... حکمران اپنے اقتدار کے بجائے ملک کو بچانے کی فکر کریں



پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ہونیوالے ظلم اور زیادتیوں کے ازالہ کےلئے بلوچستان کا مقدمہ وہ خود لڑیں گے۔ گزشتہ روز کراچی میں بلوچ قوم پرست لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاءاللہ مینگل سے ملاقات کے بعد انکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ نواب اکبر بگتی کے قاتلوں کا احتساب نہیں ہو گا تو پھر بلوچ قوم کو انصاف کیسے مہیا ہو سکے گا۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان کو خالی پیکیج دینے کے بجائے بلوچستان کے مسائل حل کرے۔ انکے بقول تمام جماعتیں مارشل لاءکیخلاف متحد ہو جائیں تو کسی کو مارشل لاءلگانے کی جرات نہیں ہو گی۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے اس موقع پر کہا کہ اب معاملات انکے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اس لئے اب پہاڑوں پر بیٹھے بلوچ نوجوانوں سے بات کرنا ہو گی۔ اگر فوج کو قابو نہ کیا گیا تو بلوچستان پاکستان کے ساتھ نہیں رہے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ فوج پنجاب کی ہے‘ پاکستان کی نہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے فوج کو لگام دی جائے‘ پھر بلوچ نوجوانوں سے بات کی جائے جنہیں فوج کے مظالم نے پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا ہے۔ انکے بقول صدر زرداری سے تو انکے گھر والے بھی متفق نہیں‘ وہ بلوچستان کے عوام سے کس طرح معافی مانگیں گے۔ بلوچستان کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک پہنچا دیا گیا ہے۔ 
سردار عطاءاللہ مینگل نے بلوچستان کے مسائل کے تناظر میں جس تند وتیز لہجے میں بلوچستان میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے کردار کا تذکرہ کیا ہے اور اسے پنجاب کی فوج قرار دیا ہے‘ ایسے تلخ لہجے کے ساتھ فوجی اپریشن کے پس منظر میں پنجاب کو مطعون کرنے کی سوچ کا کم و بیش ہر بلوچ قوم پرست لیڈر کی جانب سے اظہار کیا جاتا جو ملک کی بقاءو سلامتی کیلئے فکرمند حلقوں میں اس لئے تشویش کا باعث ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھی ایسی ہی سوچ کی وجہ سے ہمیں 40 سال قبل سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ وہاں بھی مارشل لاءکے تسلسل کے نتیجہ میں محرومیوں کا احساس اجاگر ہوا اور وفاق کے ساتھ فاصلے بڑھتے بڑھتے بدگمانی اور منافرت کی نوبت لے آئے‘ نتیجتاً پاکستان کی سالمیت کے درپے مکار ہندو بنیاءکو بنگالیوں کے جذبات سے کھیل کر پاکستان کو توڑنے کی مذموم سازش کو کامیاب بنانے کا موقع مل گیا جس کے بعد سوائے پچھتاوے کے ہمارے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ 
سب سے زیادہ المناک صورتحال یہ ہے کہ ہماری سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور باقیماندہ پاکستان میں بھی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور بالخصوص نئی نسل کو نظریہ پاکستان کے ساتھ جوڑے رکھنے کے بجائے جرنیلی حکمرانیوں کو ہی راستہ فراہم کیا جاتا رہا جس سے چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان میں وفاق کے ساتھ وابستگی کے معاملہ میں محرومی کا احساس اجاگر ہوا اور فوجی حکمرانیوں کی پیدا کردہ قباحتوں کی سزا بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب کو بھگتنا پڑی جبکہ سندھی اور بلوچی قوم پرستوں کی جانب سے بطور فیشن پنجاب کو مطعون کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا حالانکہ فوجی حکمرانیوں کے پیدا کردہ مسائل سے پنجاب بھی اتنا ہی متاثر ہوا اور یہاں بھی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی اور روٹی روزگار کے دوسرے مسائل کی بنیاد پر اتنا ہی احساس محرومی اجاگر ہوا جتنا چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ وفاق کی اکائیوں کی حیثیت سے بلاشبہ ہر صوبے کو مساوی حیثیت و اہمیت حاصل ہے اس لئے ضرورت تو اکائیوں کو وفاق کے ساتھ پیوستہ رکھنے اور قومی اتحاد و یکجہتی کے تصور کو اجاگر کرنے کی ہے تاکہ کسی صوبے کی پسماندگی اور وسائل کی محرومی سے وہاں کے عوام میں پیدا ہونیوالی بے چینی سے ہمارے مکار دشمن کو پہلے کی طرح فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ 
اگر سلطانی جمہور کو مستحکم کرکے قوم پرستوں کیلئے بھی سیاست کے قومی دھارے کےساتھ وابستہ رہنے کی حوصلہ افزا فضا پیدا کی گئی ہوتی تو آج سردار عطاءاللہ مینگل جیسے وفاق پاکستان کے خیرخواہ بلوچ لیڈروں کو ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار نہ کرنا پڑتا اور یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ اب معاملات انکے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ درحقیقت بلوچ قوم پرستوں کو جرنیلی آمر مشرف کی ہٹ دھرمی‘ انا اور بندوق کی نوک پر ہر مسئلے کا حل نکالنے کی روش نے پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب دھکیلا ہے جن کے دور حکومت میں بلوچستان کے شہریوں کو چن چن کر لاپتہ اور امریکہ کے حوالے کیا گیا اور اسکے ردعمل میں بلوچ نوجوانوں کے مشتعل ہونےوالے جذبات کا فوجی اپریشن کے ذریعے علاج سوچا گیا جس کے نتیجہ میں بزرگ بلوچ لیڈر نواب اکبر بگتی کے سانحہ قتل نے بلوچ قوم پرستوں میں مزید برگشتگی کی فضا پیدا کی جس سے ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی بلوچ قوم پرست نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے اور انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا نادر موقع مل گیا۔ اس طرح غیرپنجابی مشرف کی جرنیلی آمریت ہی کے دوران بھارتی ایجنسی ”را“ نے اپنی فنڈنگ اور سرپرستی میں مشرقی پاکستان کی مکتی باہنی بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی شکل میں اپنے پروردہ بلوچ نوجوانوں کی تنظیم کو متحرک کرکے انکے ہاتھوں پاکستان دشمن کارروائیوں کا آغاز کر دیا جن میں پاکستان کے پرچم تک کو نذر آتش کرنے کے افسوسناک واقعات سامنے آئے جبکہ فوجی حکمرانیوں کے تناظر میں پنجاب کےساتھ پیدا کی گئی منافرت کی فضا بلوچستان میں ہر شعبہ زندگی کے پنجابی آباد کاروں کو چن چن کر قتل کرنے پر منتج ہوئی۔ یہ افسوسناک سلسلہ ہنوز جاری ہے اور بھارتی سازشوں کی آبیاری نے آج بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ نواب طلال بگتی اور سردار عطاءاللہ مینگل جیسے قومی سوچ رکھنے والے بلوچ لیڈر بھی بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک پنجابی فوج کا تعلق ہے‘ مینگل صاحب جب وزیراعلیٰ تھے‘ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے۔ آج بھی نوائے وقت میں بے شمار ریٹائرڈ فوجی افسر مضمون نگار ہیں‘ اپنی آبادی کے مطابق فوج میں بلوچوں کی کوئی کمی نہیں‘ بلوچ رجمنٹس تک موجود ہیں۔
مشرف آمریت کے خاتمہ کے بعد منتخب جمہوری حکمرانوں کے پاس بلوچستان میں فوجی آمریتوں کی پیدا کردہ محرومیوں کو دور کرکے بلوچ قوم پرستوں کو سیاست کے قومی دھارے میں واپس لانے کا نادر موقع تھا اور توقع بھی یہی تھی کہ بلوچ صدر آصف علی زرداری بلوچستان کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کے حل کو اپنی حکومت کی ترجیح اول بنائیں گے۔ اس حوالے سے انہوں نے زبانی جمع خرچ والے کچھ اقدامات و اعلانات بھی کئے‘ بلوچ قوم سے ماضی کی غلطیوں پر معافی بھی مانگی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آغازِحقوقِ بلوچستان کے نام پر بلوچستان کے ترقیاتی پیکیج کا بھی اعلان کیا مگر بلوچ قوم کے اصل درد کا ازالہ کرنے کے بجائے نواب اکبر بگتی کے قاتل مشرف کو کھلا چھوڑ کر اور انکی پالیسیوں کو آگے بڑھا کر وفاقی حکومت نے بلوچ قوم میں خیرسگالی کے بجائے منافرت کے جذبات کو بڑھا وادیا۔ نواب اکبر بگتی کے پوتے اور جمہوری وطن پارٹی کے لیڈر نواب شاہ زین بگتی نے سلطانی جمہور کے آغاز ہی میں نواب بگتی کے قاتل مشرف کو کٹہرے میں لانے کا تقاضہ کیا تھا‘ جو اس وقت پورا کرلیا جاتا تو بلوچستان کے حالات موجودہ سنگین صورتحال تک کبھی نہ پہنچتے مگر حکومت نے خیرسگالی کے بجائے شاہ زین بگتی کو ہی ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام میں حراست میں لے لیا جس سے جرنیلی آمریت کے ڈسے بلوچ قوم پرستوں کے جذبات مزید مشتعل ہوئے۔ اس تناظر میں اگر آج سردار عطاءاللہ مینگل اس دردمندی کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب معاملات انکے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ملک کو بچانے اور سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ کی نوبت نہ آنے دینے کی خاطر تمام قومی سیاسی قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور بلوچستان کے گھمبیر مسائل کا قابل عمل کوئی حل نکالنا چاہیے ورنہ کل کو ماضی کی طرح پچھتاوے کے سوا ہمارے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا۔ مشرف واپسی کا اعلان کر رہے ہیں‘ انہیں ایئرپورٹ سے سیدھا عدالت لے جایا جائے۔ اگر وہ واقعی واپس تشریف لانے کی جرات کرتے ہیں۔
قبل ازیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے بلوچستان کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے سلسلہ میں اٹھائے گئے اقدامات سے بھی بلوچ قوم میں پنجاب کے بارے میں پیدا ہونیوالے منفی تاثرات کو کافی حد تک زائل کرنے میں مدد ملی ہے جبکہ بلوچستان کے طلبہ و طالبات کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرکے بھی پنجاب حکومت نے بلوچستان کےلئے خیرسگالی کے جذبات کو فروغ دینے میں معاونت کی ہے۔ اب ایک قومی قائد کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے بزرگ بلوچ لیڈر سردار عطاءاللہ مینگل کے ہم آواز ہو کر بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے تو خدا کرے کہ ملک کی سالمیت کے حوالے سے اسکے مثبت اور حوصلہ افزاءنتائج برآمد ہوں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر سے باہر نکل کر بلوچستان میں پھیلتی منافرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نواب بگتی کے قتل کے ملزم مشرف کو قانون و انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے کیونکہ یہ ملک کی بقاءکا سوال ہے اور ملک اب سقوطِ ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ 
میمو کیس: صدر جواب داخل کرائیں
سپریم کورٹ میں میمو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو باور کرایا ہے کہ صدر اس مقدمہ میں فریق ہیں۔ انکی طرف سے جواب آیا نہ الزامات سے انکار ہوا۔ انکار نہ کرنے کا مطلب الزام قبول کرنا ہے۔میمو سکینڈل کے عدالت میں آنے کے بعد سے نہ صرف حکومت عدلیہ کےساتھ تعاون نہیں کر رہی بلکہ سابق وزیر قانون بابر اعوان‘ موجودہ وزیر قانون مولا بخش چانڈیواور گورنر پنجاب سردار لطیف کوسہ عدالت کے بارے میں ایسے ریمارکس دے رہے ہیں جو صریحاً توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں، سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا بھی سخت نوٹس لیا اور اٹارنی جنرل کو باور کرایا گیاکہ سرکاری عمارت میں بیٹھ کر بابر اعوان اور متعدد وزراءنے عدالتی حکم کی تذلیل کی اس موقع پر سیکرٹری قانون بھی موجود تھے۔ لیکن وزیر اعظم کی طرف سے کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صبر کا امتحان نہ لیا جائے‘ ہرگز قانون اور انصاف کے راستے میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے اور عدلیہ کا مذاق اڑانے کی کھلی چھٹی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر بڑے اور پڑھے لکھے لوگ ہی عدلیہ کا مضحکہ اڑائیں گے تو ان کے ماتحت اور کاسہ لیس تو عدالتوں پر دھاوا بولنے تک چلے جائینگے۔ وزیر اعظم نے عدالت کےخلاف ریمارکس پر کیا نوٹس لینا تھا وہ تو خود اس گینگ کے سربراہ ہیں جو این آر او سمیت کئی فیصلوں پرعملدرآمد کرنے پر تیار نہیں۔ وزیر اعظم میمو کو جھوٹا اور حکومت کےخلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ این آر او فیصلہ ہنوز عملدرآمد کا منتظر ہے کہ حکمران میمو کو بھی اس قسم کا کیس سمجھ رہے ہیں۔ یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن حکمران اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ فوج کے سربراہ اور ڈی جی، آئی ایس آئی تک نے اپنے جوابات جمع کرا دیئے صدر صاحب نے نہیں کرائے۔ اب ترجمان ایوان صدر دور کی کوڑی لائے ہیں فرماتے ہیں وفاق سے مراد صدر وزیر اعظم اور کابینہ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب داخل کرا دیا ہے۔ اس کیس میں صدر ایک فریق ہیں۔ ان پر ذاتی طور پر الزامات ہیں۔ یہ کہناکہ اٹارنی جنرل نے جواب داخل کرا دیا۔ چہ معنی دارد؟ سپریم کورٹ نے واضح ہدایت کی ہے کہ صدر جواب داخل کرائیں۔ سو ان کو جواب داخل کرانا چاہیے۔ معاملہ انصاف کے اعلیٰ ترین فورم پر ہے۔ حکومت لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لینے کی بجائے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسکے ساتھ ساتھ اپنے بدمست وزرا اور جوشیلے رہنماﺅں کو بھی لگام ڈالے جو توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
دوہری شہریت والے الیکشن نہیں لڑ سکتے! 
الیکشن کمشن نے دوہری شہریت والوں کے انتخابات لڑنے پر پابندی لگا دی، اطلاق سینٹ کے ضمنی الیکشن پر بھی ہوگا، ریٹرننگ افسرامیدواروں سے دوہری شہریت نہ ہونے کا حلف لیں گے، پابندی آئین کی دفعہ 63-1-C کے تحت لگائی گئی ہے۔ یہ بات سیکرٹری الیکشن کمشن نے پریس بریفنگ میںبتائی۔ 
اگر غور کیا جائے تو دوہری شہریت ایک طرح سے دوغلی شہریت ہے کہ کوئی شخص اس ملک کا ہے اور نہ دوسرے کا، ایک وقت میں ایک شخص جو سیاسی الیکشن بھی لڑ رہا ہو اور دوہری شہریت بھی رکھتا ہو تو یہ فیصلہ کرنا ایک ووٹر کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ کس ملک کے باشندے کو اپنا امیدوار قرار دے رہا ہے۔ یہ دھوکہ دہی 64 برس سے چل رہی تھی، اب جا کر یہ ہوش آیا کہ یہ غیر قانونی ہے اور کوئی بھی دوہری شہریت کا حامل انتخابات نہیں لڑ سکتا۔ دیر آید درست آید کے مصداق اتنا تو ہوا کہ الیکشن کمشن نے پابند ہوتے ہوئے بھی اتنی جرات رندانہ حاصل کر لی کہ آئین کے باضابطہ آرٹیکل کے تحت دوہری شہریت سمیت الیکشن لڑنے پر قدغن لگا دی۔ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کی ملی بھگت سے یہ آرٹیکل لاگو نہیں ہونے دیا گیا اور اگر اب بھی الیکشن کمشن یہ ایکشن نہ لیتا تو یہ قانون شکنی جاری رہتی۔ یہ مزید بہتر ہوا کہ کمشن نے سینٹ کے ضمنی الیکشن پر بھی یہی پابندی لگا دی۔ دوہری شہریت کا حلف لینے کے ساتھ اگر کمشن اپنے ذرائع سے بھی کسی امیدوار کی تحقیق کرے تو یہ تحقیق مزید کا کام دے گی کیونکہ ہمارے ہاں حلف اٹھانا بھی کچھ اتنا قابل اعتبار نہیں رہا اس لئے ضروری ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والوں کے لئے صرف حلف ہی کو کافی نہ سمجھا جائے۔ حیرت ہے کہ 1973ءمیں بننے والا آئین بھی ہنوز پورے کا پورا استعمال میں نہیں آنے دیا گیا۔ اگر آئین کی بالادستی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ الیکشن کمشن اب بھی آزاد نہیں۔ آخر پارلیمنٹ میں بیٹھے قوم کے اجارہ دار کیوں اسکی مکمل آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے ؟ کیایہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں لے جانا پڑے گا؟


Post a Comment

0 Comments