اس وقت عالم اسلام میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد بارہویں صدی میں لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں موجود فوجیوں کی تعداد سے22گنا زیادہ ہے
سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد مشرقِ وسطی میں طاقت کا جو خلا پیدا ہوا، اسے پُر کرنے کے لیے امریکا آگے بڑھا۔دراصل امریکا کی آڈ میں صہیونی مقتدرہ مختلف ممالک پر تسلط اور ان پر قبضے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسکے” لیپالک “امریکہ نے طاقت کے سرچشموں اور دنیا کے حساس اسٹریٹجک اور معدنی ذخائر والے علاقوں، سمندروں اور بندرگاہوں کو اپنے قبضہ میں لینے کے لئے مختلف ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح دنیا کے بیشتر ملکوں کو غلامی کی زنجیریں پہنادیں اور انہیں کہیں زبردستی تو کہیں لالچ دے کر اپنے احکام بجالانے پر مجبور کردیا۔
جانکاروں کے مطابق امریکہ نے اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک پر قبضہ جمانے کے لئے 700سے 800 سراغ رسانی اورجاسوسی کے لیے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں۔ امریکی حکومت ان فوجی اڈوں پر سالانہ اربوں ڈالرخرچ کرتی ہے۔ امریکی دفاعی بجٹ کا زیادہ ترحصہ ان امریکی فوجی اڈوں پرہی خرچ کیا جاتا ہے۔ ان امریکی فوجی اڈوں کے اخراجات میں روز بروز اضافہ ہونے کی وجہ سے امریکی صدر نے حالیہ دنوں میں کانگریس سے 2008ءکے دفاعی بجٹ میں 46 ارب ڈالر مزید اضافے کا مطالبہ کیا۔ سال 2007ءکا بجٹ ایک سوپچاس ارب ڈالرتھا جس میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ عراق اورافغانستان کی جنگ بالخصوص دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جاری جنگ میں دنیا بھر میں استعمال ہونے والے امریکی فوجی اڈوں کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کیا گیا۔کینیڈین گلوبل ریسرچ سینٹر کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ ان فوجی سراغ رساں اڈوں کو ٹریننگ، اسلحہ ذخیرہ کرنے اور امریکی فوج کے زیر استعمال فوجی سازو سامان کو ڈیمپ(محفوظ) کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ خود امریکہ میں فروری 2007ءکے اعدادوشمار کے مطابق چھ ہزار سے زائد امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔9/11 کے بعد امریکہ نے یہ محسوس کیا کہ اسے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اس نے مزید سات ممالک کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا۔ ان ممالک نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دےدی ہے۔ امریکہ نے آخری عرصے میں جوفوجی اڈے قائم کئے، ان میں اکثر جاسوسی اورسراغ رساں اڈے ہیں جوبراہ راست سٹیلائٹ سے منسلک ہیں۔دنیا بھر میں موجود امریکی فوجی اڈوں کا نیٹ ورک مرکزی طورپر مغربی یورپ میں ہے ۔جہاں جرمنی میں 26 برطانیہ 8 اور اٹلی میں8 فوجی اڈے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان میں9 فوجی اڈے اور مراکز قائم ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ نے عرب خلیج اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں 14نئے فوجی اڈے قائم کئے ہیں۔ صرف عراق میں 20 اڈے قائم کئے گئے جن پر 1.1ارب ڈالر اخراجات آئے۔ امریکہ اس وقت کئی ملکوں کے ساتھ مزید فوجی اڈے قائم کرنے کے لئے مذاکرات کررہا ہے۔ یا پھر ان ممالک میں موجود فوجی اڈوں کی توسیع کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان ممالک میں مراکش، الجیریا، مالی، گھانا، برازیل، آسٹریلیا، پولینڈ، جمہوریہ چیک، ازبکستان، تاجکستان، کیرغیزستان، اٹلی اورفرانس وغیرہ شامل ہیں۔
ان ممالک کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال جبوتی نے اپنی سرزمین پر امریکا کو فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دیدی۔ یہ اجازت اس امریکی منصوبے کے تحت دی گئی جس کے تحت امریکی فوجی اڈوں کا جال بچھاکر مغرب کومشرق کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا جائے کہ جنوبی امریکہ میں واقع کولمبیا سے شروع ہوکر شمالی افریقہ، مشرق وسطی اور وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے فلپائن تک پہنچ جائے۔اسی طرح اپریل 2006ءمیں امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے اپنے ہم منصب بلغارین ایفالیو کالفین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ۔جس میں یہ طے پایا گیا کہ دس سال تک بلغاریا میں 2500 امریکی فوجی تعینات کیے جائےں گے۔ اس معاہدے کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ امریکہ نے حسب روایت معاہدے کی دھجیاں بکھیرکر پانچ ہزار امریکی فوجیوں کو بلغاریا بھیج دیا اور انہیں چار فوجی اڈوں میں تعینات کردیا جن میں سے دو فضائی اڈے ٹریننگ کے لئے مقرر کردیئے گئے۔
”امریکی سینٹر برائے بین الاقوامی تعلقات“ کو اس ہدف کے لئے بنایا گیا۔ اس ادارے کے اغراض میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ کو عالمی برادری میں سب سے زیادہ ذمہ دار کے طور پر نمایاں کرے۔ اس سینٹر نے امریکی حکومت میں موجود صہیونی انتہاپسند ٹولے کے ایک منصوبے کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ افریقہ میں 2008ءکے اختتام تک پانچ نئے امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کے لئے خطے میں موجود اپنے اتحادیوں اور ایجنٹوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اسی دوران ”فوکس ریسرچ سینٹربرائے ایشیا“ میں ریسرچ اسکالر ”ہربرٹ ڈوسینا“ نے بتایا کہ امریکہ جنوبی فلپائن میں امریکی فوجی اڈہ بنارہا ہے۔ اس مقصد کی خاطر امریکی نیوی کی انجینئرنگ انتظامیہ (Navfac) نے 450 ارب ڈالر کا ٹھیکہ Global Contingency Servicesکمپنی کو دیا ہے۔ یہ ادارہ وقتی طورپر امریکی فوجی اڈے بنانے کے لئے مزدور اور میٹریل وغیرہ مہیاکرے گا۔ یاد رہے کہ Navfac کی اپنی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ یونٹ امریکی نیوی میں تنہا فوجی اڈوں کو بنانے اوران کے لئے میٹریل اور مواد فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔
نیا امریکی اسٹریٹجک نقشہ (گریٹر مشرقِ وسطیٰ):
مشرق وسطیٰ کئی مختلف خطوں اور علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس میں شرق اوسط، مغرب عربی، شمالی افریقہ، واد · نیل، عرب خلیج وغیرہ شامل ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ان خطوں کے علاوہ کئی اضافی چھوٹے خطوں اور ریاستوں کو مشرق وسطی میں شامل کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ گریٹر مشرق وسطی کو تشکیل دیا جاسکے۔ امریکہ قوقاز ، مشرقی افریقہ، جنوبی ایشیا، بحر کیسپین (خزر) کا خطہ اور وسطی ایشیا کاخطہ مشرق وسطی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔امریکی حکومت نے ایک فوجی چھتری قائم کی جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ گریٹر مشرق وسطی میں شامل تمام ممالک کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں کنٹرول کرے گی۔ اس مقصد کی خاطرRapid Deployment Forces کو تشکیل اور مرتب کیاگیا جسے ”امریکی سنٹرل کمانڈ“ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جو خطے میں جاری حالیہ تمام جنگوں میں امریکہ کی ذمہ دار اور نگران قیادت ہے۔ امریکی حکومت پرحاوی جنگی صہیونی انتہاپسند ٹولہ اس وقت یہ کوشش کررہاہے کہ خطے سے جہاد کی جڑ کو ختم کرنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لئے امریکی سنٹرل کمانڈکی چھتری کو فوجی کور فراہم کرے۔ خطے میں جاری سیاسی ماحول کواس سے ہم آہنگ بناکر اس میں ڈھالے تاکہ خطے کے تمام ممالک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے والا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
مشرق وسطی میں موجود امریکی فوجی طاقت کا ڈھانچہ:
امریکی فوجی اڈے مرکزی طور پر خلیج کے خطے (سعودیہ، بحرین، قطر، امارات، سلطنت عمان اور کویت)، قوقاز کے خطے (جارجیا، آذربیجان اور ارمینیا)، جنوبی ایشیا (افغانستان اور پاکستان)، افریقی خطے (جیبوتی اور اریٹریا) اورشمالی افریقہ (مصر) وغیرہ میں قائم ہیں۔ ان فوجی اڈوں کو سپورٹ اور سپلائی فراہم کرنے والے مرکزی فوجی پوائنٹس مندرجہ ذیل جگہوں پر قائم ہیں: سب سے پہلے عرب خلیج خطے اور بحر عرب میں موجود آبدوزوں کے ذریعے امریکی فوج کو اسٹریٹجک امداد پہنچائی جاتی ہے۔ یہ امداد بحر ہند میں جزیرہ ¿ ڈیگوگریشیا میں واقع امریکی فوجی اڈوں سے پہنچائی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ترکی میں واقع امریکی فوجی اڈوں سے چھٹے بحری بیڑے اور جنوبی یورپ میں واقع امریکی فوجی اڈوںکی مدد اور ترتیب سے نام نہاد گریٹر مشرق وسطی کے شمالی خطے میں موجود امریکی فوج کو اسٹریٹجک سپلائی اور امداد فراہم کی جاتی ہے۔
امریکہ کا نقشے پر موجود اسٹریٹجک خلاؤں کو پرکرنا:
امریکی حکومت حالیہ دنوں میں خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے خصوصی طور پر شرق اوسط، براعظم افریقہ اور مغرب عربی میں واقع ریاستوں اور علاقوں پر خاص توجہ مرکوز کررہی ہے۔ امریکی حکومت حالیہ دنوں میں اس خطے کے مندرجہ ذیل ریاستوں میں فوجی اڈے قائم کرنے کی تیاری کررہی ہے:
٭ عراق: منصوبے کے مطابق عراق میں چاربڑے مرکزی فوجی اڈے شمالی، جنوبی، مغربی اورمشرقی عراق میں قائم کیے جائےں گے۔ ان فوجی اڈوں میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل مغربی عراق میں واقع امریکی فوجی اڈہ ہوگا کیونکہ وہ اسرائیل اور شام سے قریب ہوگا اور مغربی عراق کی غیر معمولی صحرائی حیثیت کی وجہ سے اسے خاص مقام حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ امریکی فوجی اڈہ مشرق وسطی کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہوگا۔ اس میں تباہ کن ہتھیاروں سمیت مختلف ہتھیاروں کے اسلحہ ڈپو قائم ہونے کے علاوہ ا س قدر بڑی ائربیسیں اوررن وے قائم ہوں گے کہ وہ بآسانی بڑے اسٹریٹجک میزائلوں اور دیوہیکل سامان بردار جہازوں کی نقل وحرکت کو برداشت کرسکےں گے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شام کی سرحد کے قریب مغربی عراق میں قائم ہونے والا امریکی فوجی اڈہ مستقبل قریب میں ”امریکی سنٹرل کمانڈ“ کا ہیڈ کوارٹر بن جائے گا۔
٭ لبنان: شامی سرحد کے قریب شمالی لبنان میں ”قلیعات“ نامی امریکی فوجی اڈہ قائم کیا جائے گا جو چھٹے امریکی بحری بیڑے اور ترکی میں موجود امریکی فوجی اڈوں اور مغربی عراق میں قائم امریکی فوجی اڈے کا آپس میں رابطہ بحال کرنے کا سبب بنے گا۔ اس کے علاوہ یہ فوجی اڈہ Rapid deployment forces اور امریکن اسپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہوگا۔
٭ اردن: امریکہ کی بحری، بری اور فضائی فورسز کو حالیہ دنوں اردن نے بہت زیادہ فوجی خدمات اور سہولتیں فراہم کررکھی ہےں۔ اُردن کے ساتھ عراق، شام اور سعودیہ کی سرحدوں سے لگنے والے قریب تر صحرائی علاقوں میں کئی امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ امریکہ اردن کو امریکی فوج کی گزرگاہ اور اسرائیل کی طرف سے آنے والی امریکی فوجی امداد کو دیگر ملکوں میں پہنچانے کے لئے اسے راستے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
٭عرب خلیج کا خطہ اور جزیرہ عرب: یمن کے علاوہ عرب خلیج اورجزیرہ عرب کے ہرملک میں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ امریکی حکومت نے ان ممالک کی حکومتوں کو امریکی فوج کے لئے بحری اورفضائی سہولتیں فراہم کرنے پرمجبور کر رکھا ہے۔ امریکی حکومت اس وقت اپنے ایک منصوبے کو پورا کرتے ہوئے یمنی حکومت سے مذاکرات کی ابتدا کرنا چاہتی ہے تاکہ یمن ملک کے مغربی جنوبی حصے میں واقع اس علاقے میں امریکی فوجی اڈہ قائم کیا جاسکے جہاں دریائے قلزم اور بحر ہند آپس میںملتے ہیں۔
٭ براعظم افریقہ کاخطہ: اس وقت جیبوتی میں امریکی فوجی اڈے قائم ہےں جبکہ اریٹریا میں امریکہ کا ایک چھوٹا فوجی اڈہ اور الیکٹرونک جاسوسی اسٹیشن قائم ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل اریٹریا کے بعض ”حنیس“ جزیروں کو خرید رہا ہے۔ اس علاقے میں کوئی آبادی نہیں۔ انہیں اسرائیلی نیوی اور اسرائیلی فوج کے ایک گروہ کے طورپر استعمال کررہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ ہے کہ ان جزیروں کو 99 سال کے لگ بھگ ایک طویل معاہدے کے تحت کرائے پر لیا جائے۔ یہاں اس خطے کا سب سے بڑا مشترکہ امریکی اور اسرائیلی فوجی اڈہ قائم کیا جائے جو پورے جزیرہ عرب، براعظم افریقہ اور مشرقی افریقہ کو اپنی زد اور نشانے پر رکھے گا۔ اس کے علاوہ بحر قلزم میں ہونے والی ملاحوں کی تمام نقل وحرکت کی نگرانی کرکے انہیں کنٹرول کرے گا۔
٭ شمالی افریقہ کا خطہ: اس میں مصر، لیبیا اور سوڈان شامل ہیں۔ امریکہ کیخلاف لیبیا اور سوڈان کے دشمنانہ موقف کی وجہ سے امریکی فوج نے مصر کے ساتھ تمام فوجی شعبوں میں خدمات انجام دینا اور آپس میں تعاون کرنے پر خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اس وقت بحرقلزم پر واقع دو مختلف مصری علاقوں ”غردقہ“ اور ”راس بناس“ کی بندرگاہوں پر امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ ان بندرگاہوں کو بحر احمر کے ذریعے بحر روم اور بحر ہند کے درمیان مسلسل چلنے والی امریکی بحری فوجی کشتیوں وغیرہ کو امداد فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح امریکی وزارت دفاع پینٹاگون اور مصری حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے میں یہ طے پاگیا کہ قاہرہ کے قریب واقع ”مبارک ایئربیس“ کو مشترکہ استعمال کیا جائے۔ یہ ایئربیس ایک طرف مصری ایئرفورس فورسز کاکام انجام دے رہی ہے۔ دوسری طرف یہ امریکی ایئر فورس کافضائی فوجی اڈہ بھی ہے۔ یہ ایئر بیس ستر کی دہائی میں ہونے والے امریکی اور مصری فوجی تعاون کے معاہدے کے تحت کئی سالوں تک قائم رہا۔ اس کے علاوہ مصر میں امریکی فوجی ٹریننگ کے دورے اور کلاسیں بھی ہوتی رہتی ہےں۔ ہرسال باقاعدگی سے مصر میں امریکی فوج کے مختلف Rapid Deployment Forces، امریکن اسپیشل فورسز، چھاتہ بردار فوجی دستوں، زرہ پوش، توپخانوںاور طیاروں کی جنگیں مشقیں ہوتی ہےں۔ یہ فوجی جنگی مشقیں اس انداز سے ہوتی ہےں کہ امریکی فوجیوں کی صلاحیتوں اورمہارتوں میں اضافہ کرکے انہیں عرب جغرافیائی ماحول میں لڑنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ جنگِ خلیج پہلی اور دوسری کے بعد ان جنگوں میں حصہ لینے والے اکثر امریکی فوجی وہ تھے جنہوں نے مصر کے ساتھ ”چمکدارستارہ“ کے نام سے ہونے والی مشترکہ فوجی جنگی مشقوں میں حصہ لیاتھا۔ عرب ممالک میں لڑنے کے لئے امریکی فوج میں ان جنگی مشقوں کو انجام دینے والے امریکی فوجیوں کو دیگر کی نسبت خاص ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ مصر میں رہنے کی وجہ سے جنگ لڑنے کے طورطریقوں اوراس کے انداز کوسمجھنے میں جو تجربہ انہیںحاصل ہوا، اس سے وہ اعلی صلاحیتوں کے حامل ہوگئے ہیں۔امریکہ اور مصر کا مشترکہ پلان یہ بھی ہے کہ ملک کے مغربی جنوبی حصے میں واقع غیر آباد مغربی صحرائی علاقے میں امریکی فوجی اڈہ قائم کیا جائے۔ یہ امریکی فوجی اڈہ ایک اسٹریٹجک فوجی اڈہ ہوگا جو چھٹے امریکی بحری بیڑے اور یورپ میں موجود امریکی فوجیوں کے درمیان رابطہ بحال کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اسی طرح اس فوجی اڈے کے قائم ہونے سے پینٹاگون کے افریقی زمینوں میں فوجی دخل اندازی کی کارروائیاں کرنے والے منصوبے کو پورا کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔
٭ مغرب عربی کاخطہ: تیونس اور مراکش کے ساتھ امریکی فوج نے معاہدے کررکھے ہیں اور اس وقت وہ الجیریا کو بھی ان معاہدوں میں شامل کرنا چاہتاہے تاکہ امریکی فوج کھلم کھلا اور بغیر کسی رکاوٹ کے پورے مغرب عربی کے خطے کو امریکی بحری افواج کے اتارنے کے لئے استعمال کرسکے۔ اس طرح بآسانی خطے کے اندرگہرائی تک گھسنے کے لئے راہ ہموار ہوجائے۔ ”جبل الطارق“ کا حساس ترین اسٹریٹجک علاقہ اور جنوبی بحر روم پر قبضہ کیا جاسکے گا۔
ان تمام حقائق کو جاننے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ امریکہ گریٹر مشرق وسطی.... جس میں تقریباً پورا عالم اسلام شامل ہے.... میں اس قدر بڑی تعداد امریکی فوجی اڈے بلاوجہ قائم نہیں کررہا اور نہ اس نے وہاں ہزاروں امریکی فوجیوں کو بغیر کسی سبب کے تعینات کررکھا ہے جن کے اخراجات سالانہ اربوں ڈالر برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد بارہویں صدی میں لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں موجود فوجیوں کی تعداد سے 22گنا زیادہ ہے۔ اس کا اعتراف برطانیہ کے مشہور صحافی ”رابرٹ فسک“ نے ایک مشہور اخبار ”انڈیپنڈیٹ“ میں چھ ماہ تحقیق کے بعد ایک مقالہ میں کیا۔اس بات میں تو اب کسی کوشک وشبہ نہیں رہا کہ امریکہ نے اس وقت اسلام اور مسلمانوں کیخلاف ہر محاذ پر جنگ بپا کررکھی ہے اور وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والے مسلمانوں کو صفحہءہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ امریکہ اس وقت مشرق وسطی میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کو تعینات اور فوجی اڈے قائم کرکے بڑی جنگوں کی تیاری کررہا ہے۔ اس تمام منصوبے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کو ایک مرکزی فوجی امدادی اور سپلائی پوائنٹ کے طورپر استعمال کرکے یورپ، چین اور روس کا گلا گھونٹ سکے۔
امریکہ کے فوجی اڈوں کے جال کا مقابلہ کرنے اورانہیں ختم کرانے کا مطالبہ دنیا میں دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے برعکس غیرمسلم ممالک کی عوام کی اکثریت بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی سے ان کاشرف اوروقار خاک میں مل رہا ہے۔ اسی طرح سویلین اداروں میں امریکی فوجی اڈوں کیخلاف تحریک مزاحمت زور پکڑ رہی ہے اور جنوبی کوریا، پورٹو ریکو، فلپائن، کیوبا، یورپ اور جاپان میں بھی اپنے ملکوں میں قائم امریکی فوجی اڈوں کوختم کرنے کا مطالبہ شدت سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یورپ میں امریکی فوجی اڈوں کیخلاف مزاحمتی تحریکیں آوازیں بلند کررہی ہےں جبکہ عالم اسلام کی عوام جسے اس وقت نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کے حکمران بے خبر لہو ولعب اورعیش وعشرت میں مست گہری نیند سورہے ہیں۔ اگرچہ طاقت کے نشے میں چُور امریکا سوویت یونین کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ سوویت یونین کے لاﺅ لشکر جب افغانستان کی سرزمین میں داخل ہوئے تو کون کہہ سکتا تھا بے سروسامان مجاہدین دنیا کی ”سپر پاور“ کو صرف ایک عشرے میں اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کردیں گے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت نہیں کہ بے یار ومددگار مجاہدین کی برکات سے سات اسلامی ممالک نے جنم لیا۔ میرے خیال میں امریکا کی مثال بالکل اس سانپ کی سی ہے جسے معمولی زخم لگنے کی دیر ہوتی ہے باقی کام حقیر سی چیونٹیاں بھی بآسانی نمٹاسکتی ہےں.... اور یہ چھوٹے چھوٹے زخم عراق اور افغانستان میں اس ”سانپ“ کو لگائے جاچکے ہیں، اب اس کی موت کا منظر بھی پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی۔(یو این این )۔
0 Comments
Need Your Precious Comments.