پاکستان کا افغان سرحد پر دفاعی نظام نصب ‘ امریکہ کا نیٹو سپلائی کی بحالی پر بدستور دباﺅ .


پاکستان کا افغان سرحد پر دفاعی نظام نصب ‘ امریکہ کا نیٹو سپلائی کی بحالی پر بدستور دباﺅ .... سیاسی و عسکری قیادت اپنے موقف پر سختی سے کاربند رہے

پاکستان نے فضائی مداخلت روکنے کیلئے افغان سرحد پر موثر دفاعی نظام نصب کر دیا‘ اسلام آباد میں سیکورٹی حکام نے غیرملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا‘ یہ اقدام نیٹو حملہ میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد کیا گیا۔ اب افغان سرحد پر ہمارا مکمل طور پر سازو سامان اور آلات سے لیس فضائی اور زمینی دفاعی نظام موجود ہے۔ اس سسٹم میں کسی بھی طیارے کا سراغ لگانے کی صلاحیت ہے۔ فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنیوالے طیارے یا ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کے سسٹم کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مابین ملاقات میں فوج کے پیشہ ورانہ امور‘ قومی سلامتی‘ افغان سرحد پر فضائی دفاعی نظام نصب کرنے اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر جنرل کیانی نے کہا کہ مسلح افواج ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے پوری طرح تیار ہیں‘ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری حکومت دوبارہ ایسی جارحیت کی اجازت نہیں دیگی۔ آئندہ ایسا ہوا تو بھرپور جواب دیا جائیگا۔ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ نیٹو سپلائی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کریگی۔ 
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی حالیہ تیاریوں کا مقصد کوئی جارحانہ اقدام کرنا نہیں بلکہ قومی دفاع کو مضبوط تر بنیادوں پر استوار کرکے ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے تاہم یہ امر واضح ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر اب کسی قسم کی جارحانہ کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور فی الفور جوابی کارروائی کی جائیگی۔ اس سلسلے میں جنرل کیانی نے جمعہ کے روز کھاریاں کے قریب ایک پہاڑی سلسلے پر فوجیوں کی مشقوں کا معائنہ کیا‘ ان مشقوں کا مقصد سرحدوں پر ہونیوالی دشمن کی کارستانیوں سے نبردآزما ہونا ہے۔ یہ مشقیں ایک واضح اشارہ ہیں کہ نیٹو کی جارحانہ کارروائی کے بعد ہر سطح پر دفاعی تیاریاں جاری و ساری ہیں۔
کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے‘ اسکی ایک مثال امریکہ سے شمسی ایئربیس خالی کرانا ہے۔ بعض امریکی حکام بڑی رعونت سے بیس خالی نہ کرنے کے دعوے کر رہے تھے‘ لیکن امریکیوں کو وہاں سے نکلتے ہی بنی۔ عسکری قیادت کے دباﺅ کے تحت جہاں شمسی ایئربیس کو امریکیوں سے واگزار اور پاک کرالیا گیا ہے‘ وہیں قوم یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ جیکب آباد اور پسنی کے ہوائی اڈوں سے بھی امریکیوں کو نکال باہر کیا جائے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔ افغانستان کے کسی بھی اڈے سے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی مار گرانا چاہیے۔ اس حوالے سے حالیہ ایران کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اس نے چار امریکی ڈرون مار گرائے اور گزشتہ روز اپنی حدود میں داخل ہونیوالا ایک ڈرون بحفاظت اتار لیا۔ اسی طرح حکومت کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر بھارت کو دی جانیوالی سہولت کا بھی ازسرنو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ یہ شبہات پائے جاتے ہیں کہ تجارتی سامان کے نام پر آنیوالے کنٹینروں میں دفاعی نوعیت کا سامان افغانستان بھجوایا جاتا ہے۔ حال ہی میں فوج نے چند مشکوک کنٹینرز کو روک کر انکی تلاشی بھی لی۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کیخلاف سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے سخت مزاحمت کی گئی تھی مگر بوجوہ امریکہ کے دباﺅ میں آکر حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی جسے اب اگل دینے کا وقت آگیا ہے۔ 
امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیمپسی نے روایتی ہرزہ سرائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اسلام آباد کا اثر ر وسوخ ختم کرکے رہیں گے اور اتحادیوں سے ڈومور کا مطالبہ بھی جاری رکھیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ افغانستان میں امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں۔ انکی ذہنیت ملاحظہ فرمائیے‘ جب افغانستان میں امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں تو پھر واپس جائے۔ اتحادیوں سے ڈومور کے تقاضے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ کیا یہ محض فیشن کیلئے کیا جا رہا ہے؟ اپنے پیشرو مائیک مولن کی طرح ان کو بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نظر آتے ہیں۔ پاک فوج ان ہی دہشت گردوں کیخلاف نبردآزما ہے۔ اب جبکہ پاکستان نے چند جرات مندانہ فیصلے کئے ایک اور قومی مفاد میں کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی لوگوں کیخلاف برسر پیکار فوج کو واپس بلا کر بیرکوں میں لے جائے یا جس سرحد پر ضرورت ہے‘ وہاں تعینات کیا جائے۔
کل تک پاکستان کی بات نہ سننے والی امریکی عسکری و سیاسی قیادت اب 26 نومبر کے نیٹو حملوں پر پچھتاوے کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ اب انکے سخت بیانات میں لچک اور نرمی پیدا ہو رہی ہے جہاں اوباما اس سانحہ کا افسوس کر رہے ہیں‘ وہیں ہلیری کلنٹن نے تو اب یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ آئندہ 26 نومبر جیسا واقعہ نہیں ہو گا۔ پاکستان سے ڈومور کے تقاضے اور ہر صورت شمالی وزیرستان میں اپریشن کے مطالبے کرنیوالے امریکہ کی سوئی اب صرف نیٹو سپلائی کی بحالی پر اٹک گئی ہے۔ ایسا ہی مطالبہ منٹر نے حنا ربانی سے ملاقات میں کیا۔ حنا ربانی کھر نے امریکی سفیر منٹر پر واضح کردیا ہے کہ نیٹو سپلائی سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ کسی فردِ واحد نے نہیں‘ پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکی دباﺅ کو مسترد کیا ہے تو اسکے جھانسے میں بھی نہ آئے۔ انہیں بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ امریکہ اوربھارت کی بڑھتی ہوئی قربت کے پیش نظر ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرینگے‘ ہمیں قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرکے قومی دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہو گا اور پلٹ کر اپنے دیرینہ اور مخلص دوستوں کی مدد حاصل کرنا چاہیے جس کیلئے چین ایک آزمودہ اور دیرینہ دوست ہے۔ دوسرے روس کی طرف سے امریکہ کو راہداری مہیا کرنے سے انکار اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرنو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے اور اس سے دفاعی‘ صنعتی اور اقتصادی روابط میں جنگی بنیادوں پر بہتری لائے۔ 
پاکستانی وزارت خارجہ‘ سفارتی سطح پر ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے عالمی اداروں‘ اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ آسیان‘ عرب لیگ اور یورپی یونین پر پاکستان کا موقف واضح کرے اور امریکہ کی طرف سے کھلی جارحیت پر احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ 26 نومبر کے حملوں کی صورتحال پر جس طرح سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے‘ اسے ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ چالاک امریکہ کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ پہلے من پسند کارروائی کرکے اپنا ہدف حاصل کرتا ہے پھر معافی تلافی کے ذریعے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا ہماری قیادت کو اسکے کسی جھانسے میں نہیں آنا چاہیے اور جو ملک و قوم کے مفاد میں تلخ فیصلے کئے گئے ہیں‘ ان پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے۔ قوم آج عسکری قیادت کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے‘ امید کی جانی چاہیے کہ امریکہ کی جارحیت پر سیاسی و عسکری قیادت نے جو موقف اختیار ہے‘ اسی پر سختی پر کاربند رہے گی‘ یہی قوم اور ملک کے عظیم ترین مفاد کا تقاضا ہے جسے ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ 
نواز شریف مسلم لیگوں کو اکٹھا کریں
مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ مسلم لیگ بکھرے ہوئے خاندان کی طرح ہے اسے اکٹھا کرنے کیلئے میاں نواز شریف کو کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کو ”جپھی“ ڈالنی چاہیے ورنہ دونوں ایک ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ جائینگے۔بانی پاکستان جماعت مختلف ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے، ہر سیاسی خاندان نے مسلم لیگ کےساتھ لاحقے اور سابقے لگا کر اسکی اصل شناخت کو داغدار کر دیا ہے۔ مشاہد حسین نے مسلم لیگ کو ایک خاندان قرار دیا ہے لیکن جب کسی خاندان میں لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو خاندان کے بڑے بزرگ آگے بڑھ کر اسے حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیر پگاڑا نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن میاں نواز شریف نے انہیں سخت مایوس کیا ہے۔ چند روز قبل کے رابطوں سے برف پگلی ہے ،اب پیر پگاڑا علیل ہوئے تو میاں نواز شریف نے انہیں پھول بھجوائے۔ میاں صاحب اس پر اکتفا نہ کریں بلکہ خود پیر پگاڑو کی تیمارداری کیلئے جائیں اور بزرگوں کی سرپرستی میں اپنے مسلم لیگی خاندان کو یکجا کریں، آج ٹکڑوں میں بٹی مسلم لیگ کو مفاد پرست عناصر اپنے ذاتی مفاد کیلئے شکار کر رہے ہیں لیکن اگر مسلم لیگ یکجا ہو جائے تو کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ کوئی دوسری جماعت اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے۔ اگر مسلم لیگ پیپلز پارٹی مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیتی تو پی پی اقتدار تک نہ پہنچتی۔۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اگر تھوڑی سی لچک دکھا کر چوہدری شجاعت حسین کو ساتھ ملا لیں تو آج بھی اقتدار مسلم لیگ کی جھولی میں گر سکتا ہے جب پیپلز پارٹی نے اقتدار کی خاطر قاتل اور مقتول کی تفریق ختم کر دی ہے۔ آپ کا تو ایسا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ملک اور قوم کی خاطر پرانی لغزشوں اور عداوتوں کو بھول کرمسلم لیگیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں، یکجا ہونے کے باوجود قائد تو آپ ہی رہیں گے۔ اقتدار تک بھی باآسانی پہنچ جائینگے، اس لئے ایک صوبے تک محدود ہونے کی بجائے پورے ملک کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ 
حکومت تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرے 
برٹش کونسل اور نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام دوسرے نیشنل سوشل ایکشن پروجیکٹ ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت مجید نظامی نے کہا کہ تعلیم یافتہ قوم کے بغیر پاکستان اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری ملک نہیں بن سکتا۔ مضبوط معیشت کیلئے تعلیم ضروری ہے۔ لوگوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تو بلاشبہ ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ کوئی بھی ملک اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ ملکی ترقی‘ خوشحالی کیلئے ایک عزم کی ضرورت ہے۔ یہ عزم قوم اور معاشرے کو تعلیم یافتہ بنا کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ تعلیم کے شعبے کو ہی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ہر حکومت نے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے بلند بانگ دعوے کئے لیکن شرح خواندگی جہاں تھی‘ وہیں ہے۔ اگر میٹرک پاس کو خواندہ تسلیم کرلیا جائے تو شرح خواندگی دس بارہ فیصد سے زیادہ نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار مرتب کرتے ہوئے صرف دستخط کرنیوالے کو خواندہ تسلیم کرتے ہوئے شرخ خواندگی 58 فیصد ظاہر کی جاتی ہے۔ تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کے دعویدار اب تک طبقاتی سسٹم ختم کرکے سب کیلئے یکساں نصاب میں لاگو نہیں کر سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم اور صحت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں‘ خالی خولی دعووں سے شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس کیلئے محض بجٹ کا دو فیصد مختص نہیں بلکہ کھلے دل سے وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں۔ 
کرزئی 50لاکھ افغان مہاجر لے جائیں
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کرزئی الزام تراشی کے بجائے50لاکھ مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کریں۔ کرزئی صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب کوئی کسی کا زیر احسان ہو تو کم از کم اس کےخلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتا، یہ اخلاقیات کا آخری درجہ ہے، جس پر بھی حامد کرزئی کاربند نہیں، ہمارے وزیر داخلہ نے خدا لگتی بات کی ہے اور پاکستان کے عوام کی بھی یہی آواز ہے کہ 50لاکھ مہاجرین جن کی مہمان نوازی کر کے ہمارے کاندھے تھک گئے ہےں، انہیں اب ہمیں سبکدوش کرنے کےلئے یہ 50لاکھ افغان مہاجرین جو پاکستان کی نہیں کرزئی کی ذمہ داری ہےں، انہیں قطار اندر قطار افغانستان لے جائیں، اپنا سبز کوٹ ان پر ڈال دیں، انکے خورونوش، قیام اور روزگار کا بندوبست کریں تاکہ ان کو کچھ تو علم ہو کہ میزبان کو دشنام دینے کی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، ویسے بھی کرزئی، کزن امریکہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان پاکستان تعلقات مکمل طور پر منقطع ہو جائیں اور کرزئی صاحب امریکہ کے اس کروسیڈی ایجنڈے مےں فعال کردار ادا کر رہے ہےں، لیکن وہ یاد رکھیں کہ افغانستان صرف کرزئی کا نام نہیں وہ وہاں کے لاکھوں غیور مسلمان افغانوں کی سرزمین ہے، یہ کرزئی تو امریکہ کے ساتھ ہی جائیں گے، مگر ہم ان سے یہ ضرور کہیں گے کہ اپنے 50لاکھ افغان مہاجرین کو افغانستان لے جائیں کہ ہماری معیشت پہلے ہی خاصی زیرباد ہے۔ 
تمام اداروں کو قانون میں رہ کر کام کرنا چاہیے!
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ مسلح افواج آئین اور قانون کی پابند ہیں، آئین کے آرٹیکل 245کے تحت ان کا کام حکومت کی ہدایات کی روشنی میں ملک کا بیرونی جارحیت کی صورت میں دفاع کرنا ہے، کوئی سیاسی جماعت ملکی سلامتی کےخلاف کام کرے تو معاملہ عدالت میں لایا جا سکتا ہے۔
ملکی آئین میں اداروں کا کردار متعین ہے اگر تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرینگے تو ملک میں قانون کی بالا دستی قائم ہو گی لیکن اگرادارے متعین حدود سے تجاوز کرینگے تو تصادم سے سب کچھ تہ و بالا ہو جائےگا، چیف جسٹس نے صحیح سمت میں رہنمائی کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کا کام صرف اور صرف بیرونی جارحیت کی صورت میں دفاع کرنا ہے، حکومت چلانا جمہوریت کو ری ڈیل کرنا یہ فوج کا کام نہیں بلکہ آئینی طور پر فوج کو جو فرائض تفویض کئے گئے ہیں اس پر فوج کو عمل کرنا چاہیے، کوئی ادارہ بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی ملکی قوانین کےمطابق کام کرنا چاہیے۔ آئین میں انکی حدود مقرر ہیں اگر کوئی جماعت ملکی سلامتی کیخلاف بنائی جاتی یا کام کرتی ہے تو یہ معاملہ عدالت میں لایا جانا ضروری ہے، عدالت اسے دیکھ کر جو بھی فیصلہ کرے، اس پر اسکی روح کےمطابق عمل ہونا چاہیے، جب قانون پر عمل ہو گا تو ادارے خود بخود مضبوط ہونگے، جب ادارے مضبوط ہونگے تو ملک مضبوط ہو گا۔ معاشی طور پر استحکام آئےگا اس لئے ہر ادارے کو آئین میں بنائی گئی حدود میں رہنا چاہیے تاکہ ہم بھی دیگر ملکوں کی طرح یہ کہہ سکیں کہ ہمارے ملک میں آئین و قانون پر عمل ہوتا ہے۔


Post a Comment

0 Comments