تیرے لوگوں سے گلہ ہے میرے آئینوں کو … (۱) | ـ 29 اپریل ، 2009 سردار محمد اسلم سکھیرا



اس وقت پاکستان جن بین الاقوامی سازشوں میں گِھرا ہوا اس سے قبل اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان سازشوں کا ذکر نہ کرنا پاکستان کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکن تھنک ٹینک نے 2000ء میں کہا تھا کہ پاکستان کے ٹکڑے ہو جائیں گے اور پاکستان میں انتشار ہی انتشار ہو گا اور 2020ء تک پاکستان دنیا کے نقشہ پر نہیں ہو گا۔ نکسن سے 1974ء میں جب پوچھا گیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ روس کی ریاستیں بغیر جنگ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اور روس کی مسلمان آبادی والی ریاستیں آزاد ہو جائیں گی تو امریکہ کا کون دشمن ہو گا تو نکسن صدر امریکہ نے کہا تھا ’’فنڈا منٹل مسلم‘‘۔ اس سے امریکہ کے Mindset کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب روس کی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تو پھر امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کا شوشہ 1994ء میں ہی چھوڑا تھا۔
نکسن سے جب پوچھا گیا کہ نیو ورلڈ آرڈر کیا ہوگا اسی زمانہ میں مَیں نے اپنے مضمون ’’ورلڈ آرڈر کیا بلا ہے‘‘ میں روز ویلٹ صدر امریکہ اور چرچل کی بحث کا ذکر کیا تھا کہ چرچل نے صدر امریکہ روز ویلٹ کو 1945ء میں ورلڈ وار دوئم کے اختتام پر کہا تھا کہ آپکے باہر یعنی اتحادیوں کے پاس ایٹم بم ہے روس پر حملہ کر دیا جائے ورنہ روس آدھے یورپ پر قبضہ کر لے گا اور مڈل ایسٹ کی ریاستوں کا تیل بھی روس لے جائیگا اور روس دنیا میں ایک ورلڈ طاقت ہو گا اور آزادی کی بین الاقوامی تحریکوں کو بھی کچل دیا جائے۔ جس پر روز ویلٹ صدر امریکہ نے رضا مندی ظاہر نہیں کی تھی جس کی وجہ سے آدھے یورپ پر روس نے قبضہ کر لیا تھا اور مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں بھی روس کا خاصہ اثرو رسوخ ہوگیا تھا۔ آزادی کے بعد بھارت نے بھی روس کی ہمنوائی شروع کر دی تھی اور پاکستان نے امریکہ کیساتھ الحاق کیا اور امریکی پالیسی کی لائن اختیار کی۔ ایوب کے زمانہ میں سیٹو‘ سینٹو کا ممبر پاکستان بنا تھا۔
نکسن نے Victory without War 1999 اپنی کتاب میں رائے ظاہر کی کہ روز ویلٹ نے چرچل کا کہنا نہ مان کر غلطی کی تھی۔ اب امریکہ کو نیو ورلڈ آرڈر بنانا ہے۔ یورپ کی تمام ریاستوں سے روس کا اثر و رسوخ ختم کروا دیا گیا ہے۔ اب مسلمان ممالک کی شامت آ گئی ہے۔ پہلے ایران عراق جنگ کرائی گئی بعد میں عراق کویت جنگ کرائی گئی۔ مصر کو اسرائیل سے لڑا کر 1967 میں رام کر لیا گیا سعودی عرب کا خزانہ کویت عراق جنگ میں ختم کر دیا گیا۔ کویت کے تیل پر قبضہ کر لیا گیا۔ جنگ کا خرچہ سعودی عرب سے وصول کیا گیا اور سعودی عرب میں اتحادی فوجیں اتاری گئیں۔ بعد میں عراق کو جو شروع میں اسلحہ دیا گیا تھا کو ختم کرنے کیلئے ایران سے جنگ کرائی گئی۔ بعد میں وہی اسلحہ جو امریکہ نے عراق کو دیا تھا اس کو Mass Distruction M.D کا نام دیکر عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ خود امریکن مُور اور دیگر امریکن لکھاری کہتے رہے کہ عراق کے پاس خطرناک ہتھیار نہیں ہیں لیکن مقصد تو عراق کا تیل پر قبضہ کرنا اور عراق کو اس قدر کمزور کرنا تھا کہ اسرائیل کیلئے خطرہ نہ ہو۔ ان دونوں مقاصد میں امریکہ کا میاب ہوا لیکن شیعہ سُنی تنازعہ عراق میں کھڑا کر کے عراق کو تقسیم کرنے یا شیعہ سُنی نفرت بڑھانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور نہ ہی عراق کو کرد، شیعہ سُنی کی تفریق میں ملک کے تین حصے کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ اسکے بعد اسامہ اور القاعدہ کا ہَوا دکھا کر اور 9/11 کا امریکہ میں ڈرامہ رچا کر افغانستان میں حملہ کر دیا۔ مشرف جو پاکستان پر Dictater کی صورت میں نازل تھے ان کو کہا گیا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا مخالف۔ ڈکٹیٹر نے بغیر کسی سے مشورہ کئے بغیر سوچنے کیلئے مہلت مانگے ’’ہاں‘‘ کر دی اور بغیر سوچے سمجھے 12 ہوائی اڈے امریکہ کو دے دئیے جن میں اب بھی اتحادیوں کے بمبار طیارے اور عملہ موجود ہے جو پاکستان میں انتشار کرانے میں کامیابی کے بعد پاکستان میں سے ہی پاکستانی فوج کیلئے دردِ سر ہوں گے‘ ڈرون حملے اسی کا شاخسانہ ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگ میں جتنے پاکستانی فوجی شہید ہوئے ہیں Nato یا اتحادی فوجوں کے نہیں مرے۔ امریکہ افغانستان کے آئل روٹ اور گیس روٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا جو تقریباً کامیاب ہوگیا ہے۔ ہم نے مالی جانی نقصان اس قدر اٹھایا ہے کہ جسکی مثال نہیں ملتی۔ ادھر پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے اور دوسری طرف ہمارے دشمنوں کو اکٹھا کر کے پاکستان میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے ساتھ جو بارڈر ہے اس پر 34 قونصل خانے بھارت نے کس لئے بنائے ہیں جہاں سے لوگوں کو ٹریننگ دیکر اسلحہ سے لیس کر کے پاکستانی علاقوں میں داخل کیا جاتا ہے اور ڈالروں میں ماہانہ تنخواہ بھی پہنچائی جاتی ہے۔ اسلحہ تنخواہ کی رقم اور ٹرینڈ لوگ فاٹا‘ وزیرستان‘ سوات‘ بلوچستان سے پکڑے گئے ہیں لیکن اسکے باوجود کوئی لیڈر بھارت‘ امریکہ ‘ اسرائیل کے گٹھ جوڑ کی بات نہیں کرتا۔ یہ ملک کیلئے کتنے ستم کی بات ہے ۔
دشمن کو دشمن کہنا اور شناخت کرنا بے حد لازم ہے جب آپ دشمن کے ارادوں کو ہی نہیں پہچان سکیں گے تو مقابلہ کیسے کریں گے۔ جانی، مالی، معاشی، اقتصادی نقصان اٹھانے کے باوجود جب آپ چپ رہیں گے تو کون آپکی مدد کو آئیگا۔ لبنان میں حزب اللہ تو ایک غیر حکومتی ادارہ تھا جس نے اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کو ناکام بنا دیا تھا اسکی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے حکمران اور اپوزیشن لیڈر مقابلہ کی جرأت کیوں نہیں کرتے۔ جب آپ اپنی مدد نہیں کریں گے ملک کو بچانے کیلئے دشمن کا تعین نہیں کریں گے تو کون آپکی مدد کیلئے آئیگا۔
جنرل مشرف کو اس لئے امریکیوں نے نہیں ہٹایا کہ Do More پر وہ عمل نہیں کر سکتے تھے بلکہ مشرف چین جانیوالے تھے اور چار معاہدے چین سے کرنیوالے تھے جن میں Atomic Reactor کا معاہدہ بھی شامل تھا۔ گوادر پورٹ کے معاہدے‘ سونا کاپر نکالنے کے معاہدے‘ مچھلی گھر کے معاہدے اور کئی دیگر معاہدے شامل تھے جن کی وجہ سے مشرف کو نکالا گیا حالانکہ مشرف کیساتھ معاہدہ میں انڈر سٹینڈنگ تھی کہ جمہوریت کے آنے کے بعد اسے پاکستان کا صدر رکھا جائیگا لیکن پاکستان کے چین سے قرب کی وجہ سے اسکو نکالا گیا۔ زرداری صاحب کیساتھ بھی کئی وعدہ وعید دبئی میں کئے گئے لیکن جب زرداری صاحب لیت و لعل کے بعد چین جانے لگے تو انکے بھی پَر کاٹنے کی کوشش کی گئی۔
نواز شریف صاحب جو شروع میں کہتے تھے کہ اگر مشرف چلا جائے تو پانچ سال تک وہ پی پی پی کی حکومت کو غیرمستحکم نہیںکرینگے لیکن جب مشرف کی رخصتی ہوگئی تو دوسرا عندیہ نواز شریف صاحب نے یہ دیا کہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بحال کی جائے جب وہ بھی ہوگیا تو تیسرا عندیہ یہ دیا کہ جسٹس افتخار احمد صاحب کو اور انکے رفقا ججوں کو بحال کیا جائے چونکہ بین الاقوامی پروگرام ملک میں انتشار کرنے کا تھا تو لانگ مارچ انتشار بڑھانے کیلئے کیا جائے۔ نواز شریف صاحب نے لانگ مارچ میں مالی جسمانی تعاون بڑھایا اور ملک کو ایک ناکام ریاست بنوانے میں بھرپور کردار ادا کیا ۔جب لانگ مارچ ناکام ہونے لگا تو پھر ہمارے دوستوں نے بھرپور کردار ادا کیا جس کی کہانی واشنگٹن پوسٹ کی تحریر سے ملاحظہ فرمائیے :۔
“US Prevented a near coup in Pakistan came perilously close last month to a political break down that could have triggered a Military Coup Washington Post has claimed the newspaper says a settlement between the government of President Asif Ali Zardari and former Prime Minister Nawaz Sharif was finally brokered by the Obama administration President Zardari’s allies had tried to cripple Nawaz Sharif his main political rival.
………………(جاری ہے)

تیرے لوگوں سے گلہ ہے میرے آئینوں کو … ( آخری قسط)
| ـ 30 اپریل ، 2009
سردار محمد اسلم سکھیرا
اسی طرح امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز لکھتا ہے کہ:
"The Obama administration is paying greater attention to former Prime Minister Nawaz Sharif. The Washington Times claims, Nawaz appear’s to be the man of the moment.” Prof Rasul Bux Rais is quoted as syai9ng, “The united states has realised that the enjoys broad based support in Pakistan and expects him to play on effective role in the fight against terrorism. A Daniel Mike Mullen and US special envoy Richard Holbroke met with Nawaz last week in Islamabad. He reported urged the Obama administration to change its policy regarding Drone Attacks inside Pakistan. A state department official in Washington.
A state Department said the US embassy in Islamabad has been in contact with Nawaz as an important political figure in Pakistan. This is no way to suggest however that we are hacking him or working closely with him. Bruce Ricdel who led the Obama administration review of US policy towards Pakistan Afghanistan said the US was dealing with Nawaz Sharif, there no holy close out there. Zardari has the political strength, but seem to be loosing. There is recognition that Sharif may well he next leader.
مندرجہ بالا امریکن اخباروں سے ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ امریکن پالیسی بنانے والے زرداری صاحب پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ ہر حالت میں امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کی مشترکہ بنائی ہوئی پالیسی پر عمل کریں اگر وہ عمل نہیں کریں گے تو انہوں نے متبادل لیڈر شپ تیار کر لی ہے۔ دباؤ کو مزید بڑھانے کیلئے چودھری نثار علی ایم این اے کا حالیہ بیان کہ چھ ماہ میں مسلم لیگ نون کی حکومت چاروں صوبوں میں ہوگی اور مرکز میں بھی نون لیگ کی حکومت ہو گی۔
ایسے بیانات ہی نہیں دئیے جا رہے بلکہ 19 ق لیگ کے سینیٹروں کو بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے اور بیان دلوائے جا رہے ہیں کہ وہ مرکز میں نون لیگ کا ساتھ دیں گے۔
اسفند یار ولی خان اور اے این پی سے بیان دلوائے جا رہے ہیں کہ اگر سوات معاہدے کو نہ مانا گیا یا توڑ دیا گیا تو وہ سرحد حکومت اور مرکز کی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔
ایم کیو ایم کے ایم این اے حضرات کو قومی اسمبلی سے بائیکاٹ کرانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے اور ایم کیو ایم نے اعلان کیا ہے کہ اگر سوات معاہدہ پر عمل ہوا تو مرکز اور صوبائی حکومت سندھ سے علیحدہ ہو جائیں گی۔
مولانا فضل الرحمن بھی حکومت سے الگ ہونے کے بیانات اور شرائط رکھ رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کوئی ان سیاست دانوں سے پوچھنے والا نہیں کہ ملک کن سنگین حالات سے گزر رہا ہے اور سیاست دان کا کیا کردار ہے۔
صوفی محمد صاحب نے شریعت محمدی کیسے نافذ کر دی ہے‘ کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو نہیں مانتے‘ کبھی پورا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔ طالبان مینگورہ‘ سوات پر اسلحہ کی نمائش کیساتھ ساتھ اپنی چوکیاں بھی بنا رہے ہیں۔ صوفی محمد صاحب نے کہا تھا کہ اگر نظام عدل یا نظام شریعت بحال کر دیا جائے تو وہ طالبان سے ہتھیار ڈلوا دیں گے۔
طالبان نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے پورے سوات میں کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے اسلحہ کیساتھ تو گشت بھی شروع کر دی ہے۔ سواتی منسٹر سب خرابیوں کا موجب امریکہ اسرائیل کو ٹھہرا رہے ہیں اور ہمارے رحمان ملک صاحب نے بھارت کیساتھ روس کو بھی بلوچ آرگنائزیشن کی مدد کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بلوچستان میں انتشار کا سبب بھارتی قونصل خانے جو افغانستان میں قائم کئے گئے ہیں وہ بلوچستان میں اسلحہ‘ پیسہ اور ٹرینڈ لوگوں سے تباہ کاری پھیلا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہلیری کلنٹن نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’پاکستان دنیا اور امریکہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘ کتنے افسوس کی بات ہے امریکی جنگ جو طالبان‘ القاعدہ اور اسامہ کے نام پر افغانستان میں مسلط کی گئی اور پاکستان نے جانی‘ مالی‘ اقتصادی نقصان دنیا میں سب سے زیادہ اٹھایا آج اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں پر قبضہ کرنے اور پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے عندیئے دئیے جا رہے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری ‘ نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمان‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان اور قاضی حسین احمد کو مل کر پاکستان کے حالات کا غور سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس جنگ کہ کہاں کس کی حکومت ہو گی کو نظر انداز کر کے ملکی بقا کی تجاویز کرنی چاہیں‘ ٹی وی چینلز کو بھی ہوش میں آنا چاہے اور غیر ذمہ دارانہ ٹی وی پر بحث سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مجید نظامی صاحب اور دیگر اخبارات کے مدیر صاحبان کو میدان میں آنا چاہیے اور ملک بچانے کیلئے تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ دشمن کا تعین ہونا چاہیے۔ مصلحتوں کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کون اب حکمران ہو گا اور کون کل کو حکمران ہو گا تب ہی ہو سکے گا اگر ملک زندہ سلامت رہے گا۔ ہر دانشور کا فرض ہے کہ ملک بچانے کیلئے میدان میں نکل آئے۔ اظہار کے ہتھکنڈوں میں آنے کی بجائے ہم سب ایک ہیں دکھا کر سیسہ پلائی دیوار کی طرح اکٹھے ہو کر یکجہتی کے ساتھ ملک بچانے کی تجاویز کرنی چاہئیں…؎
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اسکی آنکھوں کو میرے زخم کی گہرائی دے
تیرے لوگوں سے گلہ ہے میرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے

Post a Comment

0 Comments