Governor Punjab Taseer assassinated by his own guard,گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا


نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سٹی سرکل کے ایس ڈی پی او احمد اقبال نے بتایا ہے کہ گورنر پنجاب کوہسار مارکیٹ میں واقع ایک ریستوران میں کھانا کھانے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو ان کے ایک محافظ نے ان پر فائرنگ کی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے سلمان تاثیر پر سرکاری گن سے فائرنگ کی اور اس حملے میں انہیں کئی گولیاں لگیں۔
پولیس حکام کے مطابق حملہ آور کا نام محمد ممتاز قادری بتایا ہے جو گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے گورنر پنجاب کی سکیورٹی پر تعینات تھا۔
سلمان تاثیر کو فوری طور پر پولی کلینک ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے۔فائرنگ کے واقعے کے فوراً بعد پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل کچھ ارکان نے ملزم کے اہلخانہ کو اُٹھا کر اسلام آباد لے آئے ہیں جہاں پر اُنہیں تحقیقات کے سلسلے میں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم محمد ممتاز قادری کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور ان کے ساتھ ان والد اور بھائی کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے کانسٹیبل محمد ممتاز قادری راولپنڈی کے علاقے مسلم ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق وہ سنہ اُنیس سو پچاسی میں پیدا ہوئے اور سنہ دو ہزار دو میں ایلیٹ فورس میں شمولیت اختیار کی۔ ملزم ممتاز قادری اس سے پہلے بھی گورنر پنجاب کے حفاظتی دستے میں تعینات رہے تھے۔ ملزم کا رجحان مذہب کی طرف تھا جب وہ پولیس میں بھرتی ہوا تو اُس نے داڑھی رکھی تھی جسے ایک سال قبل مُنڈوا دیا تھا تاہم اُن کے ساتھیوں کی طرف سے اس عمل پر مذمت کی گئی جس پر اُنہوں نے دوبارہ داڑھی رکھ لی تھی۔
پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممتاز قادری کے فون کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
کوہسار مارکیٹ کے قریب واقع گورنر پنجاب کے گھر پر تعینات ایک سب انسپکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ گورنر پنجاب پیر کو اسلام آباد آئے تھے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی میں ذرائع ابلاغ کو بتایا ہےکہ حملہ آور کو گرفتار کرنے کے علاوہ گورنر کی سکیورٹی پر تعینات تمام اہلکاروں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں سلمان تاثیر کے ذاتی گھر اور پنجاب ہاؤس میں ایلیٹ فورس کے دو سیکشن تعینات کیے گئے تھے جن میں پولیس اہلکار کی تعداد چودہ ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے یہ حملہ اس لیے کیا کہ گورنر پنجاب نے ناموسِ رسالت قانون کو ایک کالا قانون کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس نقطے کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ ایک انفرادی عمل ہے یا اس کے پیچھے کوئی ہے۔
رحمان ملک کا کہنا تھا کہ گورنر کی سکیورٹی پنجاب پولیس فراہم کرتی ہے ان سے معلوم کیا جائے گا کہ جو لوگ انہیں تحفظ کے لیے فراہم کیے گئے کیا ان کی جانچ پڑتال ہوئی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’فورس میں جتنے بھی لوگ ہوتے ہیں خاص طور پر جو وی آئی پیز کو دیے جاتے ہیں ان کی پہلے تحقیقات ہوتی ہے اور پولیس کی سپیشل برانچ اس بارے میں رپورٹ دیتی ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے سے ہے یا اس کے کیا خیالات ہیں۔‘

Post a Comment

0 Comments