بھارت کے لئے ایک اور امریکی تحفہ

اَمریکہ بہادر نے اَقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کا اِعلان کیا ہے۔ جو درحقیقت دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اَمریکہ کے ایک اہم اِتحادی ملک ’پاکستان‘ کے وسیع تر مفادات کے خلاف ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے امریکی صدر کے اعلان کو ”ناقابل فہم“ قرار دیتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اجتماعی اخلاق کی پابندی کرے اور عارضی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے نہ کرے۔“ واضح رہے کہ امریکی صدر نے بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ سلامتی کونسل میں ایسی کسی ترمیم کا خیر مقدم کرے گا‘ جس میں بھارت کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا ذکر ہو۔“جرمنی‘ برازیل اور جاپان بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اُمید ہے کہ یہ ممالک بھی امریکی صدر باراک اوباما کے بیانات کے خلاف رد عمل ظاہر کریں گے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ ”اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اُن قراردادوں پر عمل درآمد سے مشروط کیا جائے جو کشمیر سے متعلق ہیں۔“ جبکہ امریکہ نے ایسے وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کی حمایت کرنے کی بات کی ہے کہ جب چین اس کے خلاف ہے کیونکہ اگر بھارت کو سلامتی کونسل میں رکنیت ملتی ہے تو جاپان بھی یہ رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ چیز چین کے لئے کسی طور خوش آئند نہیں۔
تمام تر عالمی دباو کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما کی جانب سے بھارت کے لئے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی حمایت دراصل امریکہ کا بھارت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبوں میں تعاون کے بعد سب سے بڑا ”تحفہ“ ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی تکمیل کے سلسلے میں آمادگی کا اعلان‘ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے ”تعلقات“ کے خلاف ایک طرح کا ردعمل شمار ہوتا ہے۔ اخبار فائنانشل ٹائمز نے بھی پاکستانی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”چین پاکستان میں پانچواں ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو اپ گریڈ کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔“ اس لئے یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا امریکہ بھارت کو سیاسی اور ایٹمی مراعات عملی طور پر دے گا بھی یا نہیں۔البتہ ان مراعات کی وجہ سے جنوبی ایشیاءکے علاقے میں کشیدگی ضرور پھیلنے کا اندیشہ ہے اور چین و بھارت کے تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں‘ جو پہلے ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔
اَمریکہ صدر نے تین روزہ دورہ بھارت (چھ تا آٹھ نومبر) کے دوران جوہری صلاحیت رکھنے والے دو ہمسایہ ممالک کو یہ مفت مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ ”باہمی تنازعات“ بات چیت کے ذریعے حل کریں۔“ لیکن امریکی صدر شاید اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ بات چیت کے ذریعے مذاکرات حل کرنے میں خود بھارت سنجیدہ نہیں۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے اُن بیانات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے کہ ”نئی دہلی اور اسلام آباد کے مذاکرات کے تعطل کا شکار ہونے کا ذمے دار بھارت ہے پاکستان نہیں۔“
اَمریکہ کی موجودہ قیادت پاکستان اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے دیرینہ مسائل کو ”سرد خانے“ میں ڈال کر دونوں ممالک سے ”یکساں تعلقات“ اِستوار کرنے اور زیادہ سے زیادہ ”تجارتی و کاروباری فوائد“ حاصل کرنے کی خواہاں ہے‘ (امریکہ کے تجارتی و کاروباری فوائد کا ذکر کسی اور مرحلہ فکر پر کیا جائے گا)۔ فی الوقت یہ حقیقت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ”اَمریکہ کی خارجہ پالیسی ساز اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے“ کہ ”اگر امریکہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی خواہش کے مطابق کرنے میں اپنا کردار اَدا کرنے کا خواہشمند نہیں‘ تو اِس سے نہ تو خطے میں ”قیام امن“ ہو سکے گا‘ ( جو پوری دنیا کی ضرورت ہے ) اور نہ ہی اَفغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو کسی صورت کامیابی مل پائے گی ( جس پر پوری دنیا کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔)Source

Post a Comment

0 Comments