’ہر پانچواں کشمیری تشدد کا شکار‘


گزشتہ ہفتہ وکی لیکز ویب سائٹ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں وسیع پیمانے پر ٹارچر کے استعمال کا انکشاف کیا۔ ویب سائٹ کے مطابق عالمی ریڈ کراس نے دلی میں تعینات امریکی اہلکاروں کو کشمیری قیدیوں پر زیر حراست تشدد کے شواہد فراہم کیے تھے اور امریکی سفارتکاروں نے اس پر اپنی تشوش بھی ظاہر کی تھی۔
اسی تناظر میں سری نگر میں ہمارے نامہ نگار ریاض مسرور نے ایک ایسے شخص سے تفصیلی بات چیت کی جن پر زیر حراست کافی تشدد کیا گیا۔
شمالی ضلع بارہمولہ کے رہنے والے چالیس سالہ عبدالقدیر پچھلے چند سال سے حراستی تشدد کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ قدیر ایک سابق مسلح شدت پسند ہیں جنہیں اُنیس سو چورانوے میں گرفتار کیا گیا اور تین سال تک وہ وادی کے مختلف مراکز میں قید رہے۔ قدیر کا کہنا ہے کہ انہیں بارہمولہ کی ’ماچس فیکڑی‘، سرینگر کے ’ریڈ سکسٹین‘، ’ہر ی نواس‘، ’پاپا۔ون‘ اور ’پاپا۔ٹو‘ جیسے ٹارچر مراکز میں رکھا گیا اور وہاں ہیبت ناک اذیتوں سے گذارا گیا۔ ان کاج کہنا ہے کہ رہائی کے بعد بھی انہیں ستائیس مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ دو ہزار سات میں انہوں نے رہا شدہ سابق شدت پسندوں کی بحالی کے لیے ’پیپلز رائٹس موومنٹ‘ قائم کی۔
انہوں نے دو ہزار آٹھ میں حراستی تشدد کے خلاف ’کیمپین اگینسٹ ٹارچر‘ عنوان سے ایک مہم چھیڑی جس کے تحت حراستی تشدد کے شکار افراد کو میڈیا کے سامنے اپنی روداد سنانے کو کہا جاتا ہے۔ انہوں نے درجنوں ’ٹارچر کہانیاں‘ بھی مرتب کی ہیں۔

تشدد کے انکشافات کے بعد رد عمل

وکی لیکس پر بھارتی فورسز کے ذریعہ کشمیریوں کے ٹارچر کا انکشاف ہونے کے بعد جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو سیاسی حریفوں اور سماجی حلقوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ ان انکشافات کے فوراً بعد مسٹر عبداللہ نے اعلان کیا تھا کہ ان کے تین سالہ دورِاقتدار میں حراستی تشدّد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، تاہم وزیراعلیٰ کے اس بیان کو علیٰحدگی پسندوں کے ’جھوٹ کا پلندہ‘ قرار دیا جبکہ اپوزیشن رہنما محبوبہ مفتی اور مقامی انسانی حقوق اداروں نے بھی ان کی نکتہ چینی کی ہے۔
کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے اتحاد ’کولیشن آف سِول سوسائیٹی‘ یا سی سی ایس نے منگلوار کو وکی لیکس انکشاف پر اپنے تفصیلی ردعمل میں دعویٰ کیا کہ حالیہ شورش کے دوران تین ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ آٹھ نوجوان حراستی تشدد کی وجہ سے مارے گئے۔ سی سی ایس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں فی الوقت ایک لاکھ افراد حراستی تشدد کے شکار ہیں جن میں بیشتر زندگی بھر کے لیےاپاہج ہوکر رہ گئے ہیں۔
علیٰحدگی پسند رہنماؤں سید علی گیلانی اور میرواعظ عمرفاروق نے الگ الگ بیانات میں عالمی اداروں سے اپیل کہ وہ کشمیر میں حقائق جاننے کے لیےسرگرم ہوجائیں۔
مجھے چار ماہ تک مختلف ٹارچر سینٹروں میں رکھا گیا۔ مجھے الف ننگا کرتے تھے اور لوہے کے کیل لگے چمڑے سے کوڑے سے مارتے تھے۔
اکبر خان، بارہمولہ، کشمیر
ان انکشافات پر عوامی حلقوں کاکہنا ہے کہ یہ بھارتی عوام کے لیےاخلاقی چلینج ہے۔ شمالی ضلع بانڈی پورہ کے رہنے والے جہانگیر شفیع کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کا انکشاف دراصل بھارتی باشندوں کے لیے ایک اخلاقی چیلنج ہے۔ جہانگیر کہتے ہیں کہ جب گوانتانامو اور ابوغریب جیلوں کے اندر کی کہانی باہر آئی تو امریکی سماج میں حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ ’اب ہم دیکھیں گے کہ بھارتی سول سوسائیٹی کیا کرے گی؟‘
بارہمولہ کے رہنے والے ساٹھ سالہ محمد اکبر خان ان سینکڑوں کشمیریوں میں سے ہیں جنہیں فوج اور نیم فوجی دستوں نے قید کے دوران ٹارچر سے گزارا۔ اکبر خان نے بارہمولہ سے بی بی سی کو فون پر بتایا ’پندرہ سال قبل فوج میرے پیچھے اس لیے پڑ گئی کہ میرے گھر میں مسلح افراد آئے تھے، وہ تو جہاں چاہتے جاتے تھے۔ مجھے چار ماہ تک مختلف ٹارچر سینٹروں میں رکھا گیا۔ مجھے الف ننگا کرتے تھے اور لوہے کے کیل لگے چمڑے سے کوڑے سے مارتے تھے۔‘
رہا شدہ افراد اور ٹارچر متاثرین کی نمائندہ تنظیم ’پیپلز رائٹس مومنٹ‘ کے سربراہ عبدالقدیر کا کہنا ہے کشمیر میں ہر پانچواں شہری حراستی تشدد کا شکار ہے۔ قدیر نے بتایا ’قریب چالیس ہزار شدت پسند ایسے ہیں جنہیں حراستی تشدد کے دل دہلانے والے حراست تشدد کا سامنا رہا۔
دریں اثنا جموں کشمیر میں تعینات فوج نے جموں کے اکھنور ضلع میں انسانی حقوق سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ سیمینار سے خطاب کرتےہوئے سولہویں کور کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جے پرکاش نہرا نے بتایا ’ہم ٹارچر کی پالیسی کو جائز نہیں ٹھہراتے۔ ہم کسی کو پکڑتے ہیں تو مقامی قانون کے تحت مقامی پولیس کے سپرد کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قیدیوں سے معلومات حاصل کرنے کی خاطر فورسز کے پاس سائنسی طریقے ہیں، لہٰذا حراستی تشدد کو سوال ہی نہیں۔

Post a Comment

0 Comments