چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ کے حالیہ دورے سے پاکستان کی بیمار حال معیشت کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں

عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم وین جیا باؤ کا تین روزہ سرکاری دورہ (سترہ سے انیس دسمبر) پاکستان کی بیمار حال معیشت کے لئے کئی خوش خبریاں لایا۔ پاک چین دوستی کے لازوال رشتوں کی گہرائی ہر دور میں بڑھی ہے اور چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے عوام کا ساتھ دیا ہے۔ چین کے وزیر اعظم کی اسلام آباد آمد، پرتپاک استقبال، تقریبات اور کم و بیش 30 ارب ڈالرز کے معاہدوں پر پوری دنیا کی نظریں جمی رہیں۔ دارالحکومت کی فضاؤں میں پاک چین دوستی جیسے پیغامات کی گونج اور 61 سال کے قلیل عرصے میں چین کی مثالی معاشی ترقی کے اسرار و رموز کے بارے بحث و مباحثے اور تجزیئے ہوتے رہے۔ ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چین کی ترقی قیادت کی وجہ سے ہوئی۔ 1949ء میں صحیح معنوں میں آزاد ہونے والے چین کو عظیم مدبر ماوزئے تنگ اور ان کے وطن دوست ساتھیوں نے عالمی طاقت بنا ڈالا۔
پاکستان چین سے عمر میں دو سال چھوٹا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں مفاد پرستوں کا ٹولہ ہمیشہ برسراقتدار رہا جو عوام کی بجائے خواص دوست اہداف رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان ترقی کی بجائے پسماندگی، جہالت اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔ آخر وہ کیا حکمت عملی تھی جس نے چین کوفرش سے عرش پر پہنچادیا ہے؟ یقیناً خود انحصاری کی پالیسی نے چین کو دنیا میں ممتاز مقام دیا ہے۔ ماوزئے تنگ ، چو این لائی اور ان کے ہم عصروں کا تدبر تھا، ان کی سیاسی فراست و بصیرت تھی اور ان کی دور اندیشی تھی جو آج تک چینی قیادت کے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے جب چین میں 1949ء میں عوامی انقلاب برپا کیا تو انہیں احساس تھا کہ مغربی سامراج یقیناً یہ کوشش کرے گا کہ چین ترقی نہ کرپائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا نہ سیکھے اور مغرب کے آگے گھٹنے ٹیکے اور اس کا معاشی اور عسکریت میدان میں محتاج رہے اور اس مقصد کے لئے وہ اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے چین میں ذہنی انتشار اور سیاسی خلفشار پھیلانے کی پوری کوشش کرے گا چنانچہ ماؤزئے تنگ نے 1949ء کے بعد کئی برسوں تک دنیا کے لئے چین کے دروازے بند رکھے اور اپنے فلسفے کے مطابق اس کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اوراس کے بعد جب چینی قیادت کو احساس ہوگیا کہ اب اگر دھیرے دھیرے وہ اپنے دروازے مغرب کے لئے کھول بھی دیں تو کوئی بھی ملک ان کا بال بیکا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی چینی قیادت کی فراست کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ 1970ء میں انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ پہلے چین کو تعلیمی ،معاشی ، فوجی اور تجارتی اور زرعی میدان میں خود کفیل کرنا ہے اس عرصے کے دوران انہوں نے کسی ملک سے تنازعہ کھڑا نہیں کیا۔ اُنہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں معاشی ترقی کی طرف مبذول رکھیں یہی وجہ ہے کہ موجودہ چین معاشی طور پر اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ امریکہ جیسا ملک بھی اس کا قرضدار ہے، کاش کہ ہمیں بھی ماؤزئے تنگ اور چو این لائی جیسے رہنما نصیب ہوجاتے۔
چین جب معاشی طو رپر پسماندہ تھا تو اس کے رہنماؤں نے پیوند لگے جوتے اور کوٹ پتلون پہننے میں عار محسوس نہیں کی اور خواہ مخواہ بغیر کسی وجہ سے محض سیر سپاٹوں کے لئے غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے نہیں لٹائے۔ افسوس ہمارے حکمرانوں نے چین کے رہنماؤں کی سادگی کو سراہا تو ہے لیکن ان کا لائف سٹائل اپنانے کی زحمت نہیں کی۔
اسلام آباد کے سیاسی حلقوں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ملک کی سیاسی قیادت کو کرنا ہے ان کے مطابق حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لائے۔ پاکستان کو ترکی کی تقلید کرنی چاہئے جب عراق پر حملے کرنے کے لئے امریکہ نے ترکی سے فضائی راستہ مانگا تو ترک حکومت نے برملا انکار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے پیشگی منظوری حاصل کئے بغیر کسی قسم کا فوجی تعاون نہیں کیا جا سکتا چنانچہ جب معاملہ ترک پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو اس نے اتنی سخت شرائط پیش کردیں کہ امریکہ پھر ترکی کا فضائی راستہ اس مقصد کے لئے استعمال نہ کرسکا۔
پارلیمنٹ کو وقعت نہ دینا پارلیمانی جمہوریت کی روایات کے منافی اقدام ہوتا ہے اور یہ بات حکومت کو بھی پیش نظر رکھنی چاہئے اور امریکہ کو بھی اس کا احساس ہے ویسے ڈرون حملوں سے وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے وہاں کے رہنے والوں میں حکومت وقت اور امریکہ کے خلاف اس قدرنفرت پید اکردی ہے کہ جس کے ختم ہونے کو بھی شاید اب صدیاں لگیں۔اسلام آباد پاکستان کا واحد شہر ہے، جس کو مخصوص نقشے اور پلان کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ نقشہ بنانے والوں نے اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں بعض علاقے بطور سبزہ زار (گرین بیلٹ) مختص کرتے ہوئے پابندی عائد کی تھی کہ ان مخصوص جگہوں کو کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ افسوس کہ (مبینہ طور پر) اَرباب اقتدار اسلام آباد کے سبزہ زاروں کو ختم کرکے تجارتی عمارتیں (پلازے) تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کہاں کہاں مداخلت کرے؟ کہاں کہاں Suo Moto نوٹس لے؟ مبینہ طور پر بلڈرز مافیا اسلام آباد میں بھی اتنا ہی مضبوط ہو چکی ہے، جتنا کراچی میں ہے۔ مٹھیاں گرم کرکے اب وہ اسلام آباد میں جہاں چاہے، قبضہ کر کے کنکریٹ کے پہاڑ (پلازے) کھڑے کردے۔

Post a Comment

0 Comments