کشمیری نوجوان کی ابوغریب

ایک کشمیری نوجوان کو، جوگزشتہ پانچ برس سے کولکاتا کی ایک جیل میں ہے، قید کے دوران مبینہ طور پر برہنہ کیا گیا ہے، اسے اذیتیں دی گئیں اور فرحت محمود
رات بھر اسے ایک کال کوٹھری میں برہنہ کر کے رکھا گیا۔
انتیس برس کے شیخ فرحت محمود کو 2003 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے دو برس بعد کولکاتا لایا گیا تھا۔
فرحت کا تعلق سرینگر سے ہے اور ان کے گھر والوں نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ زیرِ سماعت اس قیدی کو اس نوعیت کی اذیتیں دی گئیں ہیں۔ فرحت کے بھائی کا کہنا ہے کہ جیل حکام فرحت کو ٹیومر اور السر کا علاج کروانے کی بھی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
فرحت کے بھائی شیخ وجاہت محمود نے بی بی سی کو سرینگر سے فون پر بتایا ’میرے بھائی نے جیل کے ضوابط کے تحت صرف اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔‘
مغربی بنگال میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن چھوٹن داس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے ’ہمارے ذہنون میں ابو غریب اور گوانتنامو بے کی خوفناک جیلوں کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔‘
فرحت محمود
فرحت محمود کو دوہزار تین میں گرفتار کیا گیا تھا
فرحت کو پچیس ہزار کارتوس کولکاتا سے کشمیراسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کے بھائی وجاہت نے بتایا کہ فرحت نے جیل میں دیے جانے والے خراب کھانے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور جیل کے محافظوں سے درخواست کی تھی کہ اسے قید تنہائی کی کال کوٹھری کے باہر ایک گھنٹے کے لیے چہل قدمی کی اجازت دی جائے جس کا وعدہ ایک سینیر پولیس افسر نے اس سے کیا تھا۔
لیکن اس کی درخواست پر غور کرنے کے بجائے مبینہ طور پر اسے ایک اور قیدی سے پٹوایا گیا اور اس کے کپڑے اتار لیےگئے۔ انہیں رات بھر بغیر کسی لباس کے رکھا گیا۔
فرحت کے والد شیخ غلام نبی نے بی بی سی کوفون پر بتایا ’میں نے کوئی ایجنسی نہیں ہوگی جس سے کولکاتا جیل کے حکام کے مظالم کی شکایتیں نہیں کی ہوں گی لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی۔‘
میں نے کوئی ایجنسی نہیں ہوگی جس سے کولکاتا جیل کے حکام کے مظالم کی شکایتیں نہیں کی ہونگی لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی۔
فرحت کے والد غلام نبی
اگرچہ یہ واقعہ دو ہفتے قبل 14 اکتوبرکو پیش آیا لیکن اس کے بارے میں گزشتہ دنوں اس وقت پتہ چلا جب کسی نے فرحت کے گھر والوں کو سرینگر میں فون کیا اور بتایا کہ فرحت کو کولکاتا جیل میں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ اس شخص نے فرحت کی کچھ تصویریں بھی بھیجیں تھیں۔
بی بی سی نے مغربی بنگال کے جیل شعبے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بی ڈی شرما سے کئی بار رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ تاہم ایک مقامی اخبار میں ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی تفتیش کریں گے۔
فرحت کے بھائی نے بتایا کہ ’جب ہم نے اس واقعہ کے بارے می سنا تب بھی ہم وہاں نہیں جا سکے تھے۔ گزشتہ دو برس سے ہم میں سے کوئی بھی فرحت سے ملنے نہیں جا سکا ہے۔‘
قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے پیر کو جیل کے سپرینٹنڈنٹ سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرائیں اور قصورواروں کو سزا دیں۔
فرحت کے وکیل امیتابھ کانگولی نے بی بی سی کو بتایا کہ فرحت کے مقدمے کی سماعت تقریبـاً مکمل ہو چکی ہے اور سات برس بعد اب شاید فیصلہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ فرحت کوجیل میں مبینہ طور پر اذیتیں دینے کے بارے میں انہیں میڈیا سے پتہ چلا ہے اور وہ آٹھ نومبر کو جب عدالتیں تعطیل کے بعد کھلیں گی تو وہ اس سلسلے میں ضروری قانونی قدم اٹھائی گے۔
Source

Post a Comment

0 Comments