القاعدہ اور طالبان کی حمایت

انور سِن رائے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن




میں القاعدہ اور طالبان کی مخالفت نہیں کر سکتا ہوں لیکن میں ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا اور میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری طرح کے اور بہت سے ہیں۔ اتنے بہت سے کہ تمام تر احتیاط کے ساتھ ہمیں اکثریت کہا جا سکتا ہے۔ ہم نہ صرف ان ملکوں کے شہری ہیں جن پر ’اسلامی ممالک‘ ہونے کا دھبہ لگا ہوا ہے بلکہ ان ملکوں کے بھی جہاں روشن خیالی اور نام نہاد آزادی میں ہماری کایا کلپ ہو چکی ہے۔

اگرچہ القاعدہ اور طالبان ہمارے لیے اصل خطرہ بن گئے ہیں۔ ہمارے لیے جو ’سب کچھ‘ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی رہنا چاہتے ہیں۔ زندگی جیسی بھی گزاریں ہم دفن مسلمانوں کی طرح ہونا چاہتے ہیں۔ مرنے کے بعد ایک قبر اور اس پر آنے والوں کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہمیں کافر کہے تو ہمیں غصہ بھی آتا ہے اور غصے کے اظہار کی جگہ نہ ہو تو کم از کم برا ضرور 
لگتا ہے۔
بے شک امریکہ میں ہماری تلاشی سارے کپڑے اتروا کر لی جائے یا کوئی بھی اور سلوک یا برتاؤ کیا جائے، ہم نہ تو امریکہ اور ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں جانے کے خواب دیکھنا بند کر سکتے نہ ہی خود کو مسلمان سمجھنا اور کہنا چھوڑ سکتے ہیں۔

ہم ایسے ہیں کہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری بیٹیاں شادی کے بغیر کسی کے ساتھ شریکِ حیات بن کر رہیں یا ان سے اس طرح کا تعلق رکھیں یا محبت اور شادی کے لیے کسی غیر مسلمان کا انتخاب کر لیں۔


بیٹوں کے معاملے میں ہم قدرے نرم واقع ہوئے ہیں۔ بیٹے اگر شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھیں تو ہمیں برا نہیں لگتا اور لڑکی مسلمان نہ ہو تو بالکل ہی برا نہیں لگتا بلکہ کچھ فخر سا ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ ڈر سا لگتا ہے کہیں شادی کا چکر نہ چل جائے اور شادی ہی ہو جائے تو اگلی نسل کے مسلمان ہونے کی فکر پڑ جاتی ہے۔

ہمیں شادیوں کے لیے مذہب بدلنا پسند نہیں لیکن اگر ہمارے بچوں کے لیے دوسرے مذہب بدلیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم اندر ہی اندر مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور شرمسار رہتے ہیں ایسی باتوں کو چھوت کی بیماری کی طرح چھپاتے پھرتے ہیں۔

ہم قرآن نہیں پڑھتے۔ ہم میں سے کچھ تو پڑھ ہی نہیں سکتے اور بہت سے پڑھ کر پڑھنا بھول چکے ہیں اور بہت سے اسے بے سود سمجھنے لگے ہیں لیکن قرآن کی توہین تو کیا مخالفت بھی سہنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ نماز پڑھیں نہ پڑھیں لیکن مسجد کو کچھ ہو جائے یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ شراب اور سور کو حرام سمجھتے ہیں لیکن شراب پی لیتے ہیں سور نہیں کھا سکتے۔ گویا کتنی ہی باتیں ہیں جو ہم میں نہیں ہونی چاہیں اور ہیں اور کتنی ہی باتیں ہیں جو ہم میں ہونی چاہییں اور نہیں ہیں۔


ان ساری باتوں کے ساتھ ہم جیسے بھی ہیں مسلمان ہیں۔ خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں اور کبھی کبھی تو ہمیں اس بات پر تکلیف بھی ہوتی ہے کہ القاعدہ یا طالبان کو اس لیے مارا جائے کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق اپنے طریقے سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔


ایسا نہیں کہ ہمیں طالبان سے کوئی شکایت نہیں۔ ہے اور یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن ان کا یہ سمجھنا کہ جو ان کے ساتھ نہیں ہے ان کا دشمن ہے اور اس کا مارا جانا یا اس کا نقصان عین اسلام ہے، یہ ہمیں قبول نہیں۔


پتہ نہیں آپ کی رائے کیا ہو لیکن ہمیں تو القاعدہ و طالبان اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں کچھ درجوں کے علاوہ کوئی فرق نہیں لگتا۔ درجوں کا فرق بھی یہ ہے کہ ایک فریق کے پاس قوت کم ہے اور ایک کے پاس زیادہ لیکن دونوں کا انحصار ڈنڈے پر ہے اور اس لیے جب ہم القاعدہ اور طالبان کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی حمایت نہیں کرنے دیتے اور جب ان کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادی مخالفت کرنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔


*BBC Urdu‬ - *قلم اور کالم‬ - *القاعدہ اور طالبان کی حمایت‬

Post a Comment

0 Comments